تازہ ترینمضامین

شرف الدّین موردیرو لفٹیننٹ ۔۔۔سیدسردار حسین

نو نومبر1948 کو صوبہ سرحد (این ڈبلیو ایف پی) کے انگریز گورنر Ambrose Flux Dandas نے ان الفاظ کے ساتھ چترال موردیر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو ریاستی فوج سے فرانٹئر فورس ملیشیا میں تبدیل کرکے ترقی دیتا ہے Mr Sharaf uddin khan _’Truste and confidence in your loyalty ability and and good conduct I here by appoint you an officer in the FRONTIER CROPS OF Militia AND SCOUT FRONTIER CONSTABULARY یہ تھے لفٹیننٹ شرف الدّین پورے چترال میں موردیرو لفٹیننٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں آپ علاقہ موردیر کے باشندے اور شاہی خاندان کے ایک شاخ محمد بیگے قبیلے کے چشم و چراغ تھے آپ چترال بھر میں منفرد طبیعت کے مالک انتہائی ڈسپلن کے پابند انسان گذرے وہ انتہائی ایماندار نظم وظبط کے پابند سچا اور کھرا انسان تھے معمولی علط کام نہ خود کیے نہ کسی کو کرنے دیتے تھے
یہ دو بھائی تھے ایک لفٹیننٹ شرف الدین دوسرا شاہ نادرخان دونوں نے مل کے اپنے خاندان کو علاقائی سطح سے نکال کر ملکی بین الاقوامی سطح تک پہنچائے چترال اور موردیر جیسے پسماندہ علاقے میں رہ کر تعلیم کو اہمیت دی آج ھم اس خاندان کا جایزہ لیتے ھیں تو کوئی ایسا فیلڈ نہیں جس میں اس خاندان نے خدمت نہ کی ھو ہم اگر ذراعت کا جایزہ لیتے ھیں تو ہمیں مرحوم ڈایریکٹر سیف الملک نظر آتا ھے جس نے چترال میں جدید زراعت کی بنیاد رکھی اور چترال میں پہلی دفعہ فروٹ نرسریز کا قیام عمل میں لایا اور چترال کو میوہ جات میں خود کفیل کیا چترال کے طول وعرض میں سرکاری و نجی باعات ان کی یاد دلاتے ہیں افواج پاکستان میں زین العابدین اور سعد توقی جونیر کمیشن آفیسر رہے۔ جب ہم تعلیم کا جایزہ لیتے ہیں تو استاذ جلال الدین استاذ سعد رومی نظر آتے ھیں جو اپنے دور کے قابل ترین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ میں شامل تھے سعد رومی صاحب پینشن آنے کے بعد جب اس علاقے میں کوئی انگلش میڈیم سکول نہیں تھا رومی نے بمباع کے گاؤں میں تمام ملحقہ دیہات کے بچوں کیلئے انگلش میڈیم سکول بنایا اور جدید تعلیم لوگوں کے دہلیز میں مہیا کی پروفیسر ہمایوں رومی صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف کالجوں اور چترال کے کالجوں میں اعلیٰ تعلیم کے پروفیسر رہے سیف الدین بین الاقوامی اداروں میں کام کیے ابھی آغا خان ایجوکیشن میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اس خاندان نے بین الاقوامی شخصیت بھی پیدا کی پروفیسر ڈاکٹر طارق اللہ خان آپ اسلامی معیشت اور بینکاری میں اتھارٹی مانے جاتے آپ نے اِستنبول ترکی متحدہ عرب امارات کینیڈا یورپ کے بنکوں کے علاؤہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر رہے آپ کئی ایوارڈز سے بھی نوازے جا چکے ھیں ڈاکٹر پروفیسر طارق اللہ خان پی ایچ ڈی سکالرز کے استاذ ھیں اسی خاندان نے بینکاری کے شعبے میں نمایاں خدمات پیش کی جناب علی آحمد خان حبیب بنک کے ساتھ منسلک رہ کر پورے چترال کی خدمت کی اور وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ھوے ان کا بیٹا منظور ابھی حبیب بینک کے ساتھ منسلک ھیں عدنان زین العابدین پورے چترال میں زین العابدین مرحوم کے بعد انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آپ نے بے شمار سماجی خدمات انجام دئے خاص کر ابنے بھائیوں مستنصر صاحب اور عدنان زین العابدین کے ذریعے موڑکھو کے بہن بیٹیوں کے لیے ذنانہ کالج کی بنیاد رکھی چونکہ پوری تحصیل میں ذنانہ کالج نہ ھونے سے بہن بیٹیاں تعلیم سے محروم تھیں اس کمی کو بھی اس خاندان نے پورہ کیا عدنان ذین العابدین نیشنل بنک پاکستان میں اعلیٰ عہدے پر فائز ھیں اور افعانستان میں میں خدمات انجام دے رہے ہیں افعانستان میں جب طالبان انقلاب آیا تو سارے لوگ چھوڑ کر پاکستان ایے لیکن عدنان صاحب نے مشکل حالات میں بھی افعانستان میں موجود قومی ادارے کو سنبھال کے رکھا اسی خاندان نے صحت کے شعبے میں اعلیٰ پائے کے ڈاکٹر جن میں ڈاکٹر سعد ملوک چترال کے سینئر ترین ڈاکٹروں میں سے ہیں ڈاکٹر فیض رومی ڈسٹرکٹ ھیلتھ آفیسر DHO چترال ڈاکٹر علوینہ ڈاکٹر تیمور پیدا کیےاس طرح PhD میں ڈاکٹر نسیمہ ڈاکٹر آفاق ھیں انجینئر نیاز انجینئر بابر انجینئرنگ کے شعبے میں ہیں صحافت کے شعبے میں عمرآن زین العابدین 80 کے عشرے میں افعان انقلاب کے دوران بم دھماکے کا شکار ہوکر شہید ہوئے آپ انگریزی روزنامے کے ساتھ منسلک تھے سلمان زین العابدین بھی بین الاقوامی ادارے کے ساتھ منسلک تھے 2016 کے ھوائ جہاز کے حادثے میں شہید ھوے اگر سیاست کی بات کی جائے تو زین العابدین مرحوم سے ایک دنیا واقف ھے آپ ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر رھے 1993 کے الیکشن میں پورے چترال سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا قومی اسمبلی کے امیدوار جماعتی اسلامی کے ہاتھوں بری طرح ہار گئے آپ نے پورے چترال سے ایسے ووٹ لیکر کامیاب ہوے کہ آج تک یہ ریکارڈ کوئی نہیں ٹوڑ سکا آپ نے اس دور کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملکر چترال کیلیے مفت ھیلی کاپٹر سروس کا اجراء کیا لواری کے اپر سے مالاکنڈ کی بجلی چترال پہنچائی گندم کے کوٹے میں ھزاروں ٹن کا اضافہ کیا اور بے شمار ترقیاتی کام کیے آج کل اسی فیملی سے مستنصر صاحب ان کی جگھ سیاست میں خدمات انجام دے رھے ھیں اس تفصیلی نوٹ کا صرف ایک مقصد ھے کہ ترجیحات کیا ھونی چاہیئے اگر تعلیم کسی خاندان کی اولین ترجیح ہو تو وسائل اللہ پاک مہیا کرتا ھے مرحوم لفٹیننٹ کوئی سرمایہ دار یا جاگیر دار نہیں تھا لیکن ان کی ترجیح تعلیم تھی تو خاندان میں انقلاب لایا ہر چترالی خاندان کو یہ سوچنا چاہیے کہ چترآل میں نہ کارخانے لگ سکتے ھیں ذراعت کیلئے زمینات تقسیم در تقسیم ہوکر ختم ہوگیے ہیں ھمارے پاس تعلیم کے سوا کوئی چارہ نہیں تعلیم یافتہ ھونگے تو دنیا ھماری نسلوں کیلئے کھل جائیگی

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button