تازہ ترین

1965: جب غلطی سے انڈین جنگی جہاز پاکستان میں اتر گیا

اس زمانے کے بیشتر جنگی جہاز GPS سسٹم یا ریڈار سے لیس نہیں ہوتے تھے۔ پائلٹ واپسی کے لیے نقشوں یا قطب نما کا استعمال کیا کرتے تھے۔ سکند اپنی فارمیشن سے بچھڑ گئے تھے۔ ان کے پاس ایندھن کم تھا، اس لیے انھیں اوپر سے جو فضائی پٹی دکھائی پڑی اسی پر وہ یہ سوچ کر اتر پڑے کہ وہ کوئی ویران انڈین فضائی پٹی ہو گی۔

لیکن سکند یہ جان کر دنگ رہ گئے کہ وہ پاکستان میں پسرور کی ایک فضائی پٹی پر اتر گئے ہیں۔ انھیں فوری طور پر جنگی قیدی بنا لیا گيا۔ دوسری طرف جب سکند پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر کافی دیر تک واپس نہیں آئے تو دو ویمپائر جہاز ان کی تلاش کرنے کی مہم پر نکلے۔ انھوں نے سکند کے جہاز کے ملبے کو اوپر سے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اندازہ یہ تھا کہ ان کا جہاز گر کر تباہ ہو گیا ہو گا۔ وہ خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ سکند کا نیٹ جنگی طیارہ سرحد پار پاکستان میں پسرور کے ہوائی اڈے پر اتر چکا ہے۔

فیلڈ مارشل ایوب کے بیٹے گوہر ایوب خاں نے بی بی سی کو بتایا کہ سکند کا نیٹ غلطی سے پسرور میں نہیں اترا بلکہ اسے پاکستان کے ایک سٹار فاٹر طیارے نے زبردستی پسرور میں اترنے پر مجبور کیا تھا۔

گوہر ایوب نے بتایا: ‘اس طیارے کو میرے بیچ میٹ حکیم اللہ اڑا رہے تھے۔ حکیم اللہ بعد میں پاکستانی فضائیہ کے سربراہ بنے۔ انھوں نے جب سکند کے طیارے کو پاکستانی علاقے میں اڑتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اسے یہ پیغام بھیجا کہ وہ نیچے کی پٹی پر اپنا جہاز فوراً اتاریں ورنہ وہ اسے اڑا دیں گے۔’

سکند کو جنگی قیدی بنانے کے بعد فلائٹ لیفٹیننٹ سعد حاتمی اس نیٹ کو اڑا کر پشاور کے ہوائی اڈے لے گئے۔ انھوں نے برطانیہ میں اپنی تربیت کے دوران نیٹ جہاز اڑانے کا تجربہ حاصل کیا تھا۔

پاکستان میں ہوا بازی سے متعلق مؤرخ قیصر طفیل بتاتے ہیں: ‘سکند نے پوچھ گچھ کے دوران تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ ان کے طیارے میں ایک ساتھ کئی خرابيا ںپیدا ہو گئی تھیں۔ میں نے بھی جنگی ہوائی جہاز اڑائے ہیں اور میں تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ کسی طیارے میں ایک ہی وقت میں اتنی ساری مشکلیں پیدا نہیں ہو سکتیں۔

بی بی سی نے اس معاملے میں سکند کی بھی رائے لینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ اب وہ بہت معمر ہو چکے ہیں۔

سکند نے کچھ اخباروں میں مضامین لکھ کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ غلطی سے پسرور میں اترے تھے اور اس کا احساس ہونے پر انھوں نے دوبارہ ٹیک آف کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔

اس کے جواب میں قیصر طفیل کہتے ہیں: ‘لینڈ کرنے کے بعد ایک فائٹر جیٹ فوری طور پر ٹیک آف نہیں کر سکتا۔ انھوں نے تو اپنا انجن بھی پوری طرح سے آف کر دیا تھا اور اس وقت وہ پٹی کے بالکل آخر تک پہنچ چکے تھے جہاں سے دوبارہ ٹیک آف کرنا ناممکن تھا۔’

لیکن سکند کی حمایت میں پی ایس جگن موہن اور سمیر چوپڑا اپنی کتاب ‘دی انڈیا پاکستان ایئر وار آف 1965’ میں لکھتے ہیں: حکیم اللہ اس علاقے میں بھلے ہی اڑ رہے ہوں جہاں یہ نیٹ اترا تھا، لیکن پاکستانی ذرائع کے علاوہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ نیٹ کو زبردستی پسرور میں اتروایا گيا ہو۔

قیصر طفیل نے ایک دوسرے مضمون میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حکیم اللہ نے اس وقت تک نیٹ کو نہیں دیکھا تھا جب تک انھوں نے اسے پسرور کی فضائی پٹی پر اپنے بریک شوٹ کے ساتھ کھڑے پایا۔

اس واقعے کا ایک اور گواہ امرتسر میں ریڈار سٹیشن کے ونگ کمانڈر ڈانڈ پانی تھے۔ انھوں نے جگنموہن کو بتایا کہ وہ انھیں اسی وقت پتہ چل گيا تھا جب جب سکند کا طیارہ اپنے فارمیشن سے الگ ہوا تھا لیکن اس کے بعد وہ طیارہ ریڈار کی سکرین سے غائب ہو گيا۔

گوہر ایوب خان نے ایک اور دلچسپ بات یہ بتائی ہے کہ اس نیٹ جہاز کو بعد میں پاکستانی ایئر فورس کی تربیت کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسی تربیت کے دوران ایک پرندہ اس جہاز کی کینوپی سے ٹکرا گیا، جس کی وجہ سے اس کو کافی نقصان پہنچا۔

‘اس وقت یوگوسلاویہ کی فضائیہ میں کئی نیٹ جہاز استعمال ہوتے تھے۔ ہم نے اس کی کینوپی وہاں سے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن انھوں ہماری بات نہیں مانی۔ ہمارا نصیب اچھا تھا کہ انگلینڈ میں ایک پٹرول پمپ پر تعینات ایک پاکستانی ایئر اتاشی کی ایک انگریز سے ملااقت ہو گئی۔

وہ انگریز انڈیا میں ‘بھارتی ایرونٹکس فیکٹری میں کام کر چکا تھا۔ گوہر ایوب خان کے مطابق: جب ہمارے ایئر اتاشی نے ان سے کہا کہ ہم نیٹ کی کینوپی تلاش کر رہے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا حصول کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو گا۔’

اس انگریز کا شکریہ کہ اس کی کینوپی کو بنگلور کی فیکٹری سے باہر لایا گیا اور خفیہ طور پر پاکستان کو بھیج دیا گیا اور نیٹ جنگی جہاز دوبارہ پرواز کے لائق بن گيا۔ آج بھی یہ نیٹ پاکستانی ایئر فورس میوزیم میں رکھا ہوا ہے

Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button