تازہ ترین

ایک پین کی مدد سے صرف دس سیکنڈز میں کینسر سے متاثرہ خلیوں کی تشخیص ممکن ہو گی

امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹیکسس کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اب قلم کے سائز کے برابر کے ایک آلے کے ذریعے صرف دس سیکنڈوں میں کینسر سے متاثرہ خلیوں کی تشخیص کی جا سکے گی۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس آلے کی مدد سے جسم سے کینسر زدہ رسولی کو ہٹانے کے آپریشن کو تیزی سے، زیادہ محفوظ طریقے سے اور عین ٹھیک جگہ پر کرنے میں مدد ملے گی۔

‘شیرخوار نے کینسر کی تشخیص میں مدد کی’

سائنس ٹرانسنیشنل میڈیسن نامے طبی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس آلے کی ٹیکنالوجی کے نتائج 96 فیصد تک درست نکلے ہیں۔

میس سپیک کہلانے والا یہ آلہ کینسر کے خلیوں کے میٹابولز یعنی خلیوں میں کیمیائی تبدیلی کے منفرد نظام سے استفادہ کر کے مرض کی تشخیص کر سکے گا۔

ان خلیوں کی انتہائی تیزی سے ہونے والی نمو اور پھیلاؤ کا مطلب یہ ہے کہ ان خلیوں کی کیمیائی تبدیلی کا عمل صحت مند خلیوں سے بہت مختلف ہے۔


میس سپیک کام کس طرح کرتا ہے

یہ قلم نما آلہ کینسر کی مشتبہ جگہ پر لگایا جاتا ہے اور اس سے پانی کا ایک آدھ قطرہ نکلتا ہے۔ زندہ خلیوں کے اندر کے کیمیائی عناصر پانی کے قطروں کی طرف حرکت کرتے ہیں اور پھر یہ قلم نما آلہ انھیں تجزیہ کرنے کے لیے واپس چوس لیتا ہے۔ پھر اس قلم کو ایک سپیکٹرو میٹر سے جوڑ دیا جاتا ہے جو ہزاروں کیمیائی عناصر کا تیزی سے تجزیہ کرتا ہے۔ اس میٹر سے ڈاکٹرں یہ جانچ لیتے ہیں کہ آیا خلیے صحت مند ہیں یا کینسر زدہ ٹیشوز۔


لیکن اب ڈاکٹروں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ کینسر زدہ اور صحت مند خلیوں میں فرق سمجھ سکیں۔

کچھ رسولیوں میں تو یہ فرق واضح ہوتا ہے لیکن بعض اوقات کینسر زدہ اور صحت مند خلیوں میں فرق کرنا آسان نہیں ہوتا۔

اس قلم نما آلے کا کام یہی ہوتا ہے کہ یہ تجزیہ کر کے بتائے کہ کینسر سے متاثرشدہ کوئی خلیہ تجزیے سے رہ نہ جائے۔

اگر کینسر زدہ رسولی کے کچھ حصے کو ہٹا دیا جائے لیکن کچھ رہ جائے تو وہاں دوبارہ سے رسولی بڑھنے لگتی ہے۔ لیکن اگر رسولی نکالتے وقت عضو کا زیادہ حصہ ہٹا لیا جائے تو صحت مند جسم کو نقصان پہنچتا ہے، خاص کر اگر رسولی دماغ کے کسی حصے میں ہو۔

لیویا ایبرلین یونیورسٹی آف ٹیکسس میں اسسٹینٹ پروفیسر ہیں، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کی زبردست بات یہ ہے کہ یہ ڈاکٹر کی تمام توقعات کے مطابق اس کی مدد کرتا ہے۔

یہ آلہ خوبصورت اور سادہ ہے، اور جلد ہی یہ سرجنوں کے استعمال کے لیے دستیاب ہو گا۔

اس ٹیکنالوجی کی تحقیقات کے دوران اسے 253 افراد پر تجربے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اب حکمت عملی یہ ہے کہ اس آلے کا مزید ایک برس تک ٹیسٹ جاری رکھا جائے اور پھر اگلے برس اسے آزمائشی طور پر پیش کیا جائے۔

یہ قلم نما آلہ 1.5 ملی میٹر کے ایک حصے کا تجزیہ کرسکتا ہے۔ مگر محققین نے مزید بہتر قلم بھی بنا لیے ہیں جو 0.6 ملی میٹر حصے کا بھی تجزیہ کر سکتے ہیں۔

یہ قلم قیمت کے لحاظ سے سستا ہے مگر اس کے ساتھ کا سپیکٹرومیٹر کافی مہنگا ہے اور حجم میں بھی بڑا ہے۔

ڈاکٹر ایبرلین کا کہنا ہے کہ اب سپیکٹرومیٹر کا سائز ہی ایک رکاوٹ لگتی ہے۔ اب ہم اس پر غور کر رہے ہیں کہ یہ قدرے چھوٹے سائز کا ہو، سستا ہو اور اسے آسانی سے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں لے جایا جا سکے۔

میس سپیک نامی قلم نما آلہ سرجری کی درستگی میں ایک اور بڑی کامیابی ہے۔

امپیریل کالج لندن نے ایک ایسا نشتر بنا لیا ہے جو کسی عضو کو جب کاٹتا ہے تو یہ جاننے کے لیے کہ اس میں کینسر ہے یا یہ وہ صحت مند ہیں، انھیں سونگھ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک ٹیم لیزر کے ذریعے یہ تجزیہ کر سکتی ہے کہ دماغ کے آپریشن کے دوران ٹشو کا کتنا حصہ کاٹنا چاہیے۔

کینسر ریسرچ یو کے نامی تنظیم کی ڈاکٹر ایئن میکارتھی کا کہنا ہے کہ اس آلے کی وجہ سے عنقریب ڈاکٹر بہت تیزی سے کینسر کی تشخیص کر سکیں گے۔

’آپریشن کے دوران ٹشوز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے ڈاکٹر باآسانی یہ طے کر سکیں گے کہ مریض کو کس قسم کے علاج کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button