تازہ ترین

زرداری کی باری…؟

زرداری کی باری…؟

تحریر:الیاس شاکر

ملک میں وزیر اعظم کی تبدیلی کے بعد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ دوسرا دھماکہ سندھ میں ہو گا اور اس کا مرکز شاید کراچی ہو۔ نواز شریف کی رخصتی کے بعد یوم تشکر کے جلسے میں عمران خان نے گرجتے ‘ برستے اور للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ” آصف زرداری اب تمہاری باری ہے‘ زرداری کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ اس ”نعرے‘‘ میں لڑائی کی تیاریوں کے بیشتر سگنل بھی موجود ہیں، ”سیاسی بارودی جیکٹس‘‘ پھٹنے کی منتظر نظر آتی ہیں اور لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ”خود کش حملہ آور‘‘ کمپیوٹرز اور موبائل فونز کو نشانے پر لینے والے ہیں۔ نواز شریف کی رخصتی بہت سے طالع آزمائوں کے لئے ایک اور ”موقع‘‘ بنتا جا رہا ہے۔ عمران خان کی للکار نے سب کو پریشان ضرور کیا ہے لیکن سیاست میں اس قسم کی للکار اور چنگھاڑ چلتی رہتی ہے۔ اسے عام طور پر معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی دنگل بھی سجتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو پچھاڑتے بھی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کے میدان میں عمران خان کیا اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ آصف علی زرداری کو چاروں خانے چت کر دیں اور وہاں اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیں۔
نواز شریف صاحب کے خلاف آرٹیکل 62 کے پہاڑ سے پھٹنے والا آتش فشاں اب کچھ ٹھنڈا تو ضرور ہوا ہے لیکن آفٹر شاکس ابھی جاری ہیں جو کبھی شدت اختیار کر جاتے ہیں اور کبھی ”سلوموشن‘‘ میں رہتے ہیں لیکن سندھ کا کھیل ابھی اتنا آسان نہیں ہے۔ سندھ میں لسانی تقسیم بہت عجیب و غریب ہے اور عمران خان لسانی لحاظ سے یہاں یعنی سندھ میں سب سے زیادہ کمزور ہیں۔
آصف علی زرداری کو قابوکرنا اس لئے بھی آسان نہیں کہ سندھیوں کی اکثریت کسی نہ کسی طرح اُن کے ساتھ ہے۔ انہوں نے بلوچ ہونے کا ”ماسک‘‘ بھی پہن رکھا ہے۔ اس طرح سندھ کے بلوچستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں بھی انہیں پذیرائی حاصل ہے۔ سندھ میں اردو سپیکنگ کئی حوالوں سے آصف علی زرداری کے حامی بھی ہیں کیونکہ وہ صوبائی حکومت کی طاقت کی وجہ سے ”ڈائریکٹ‘‘ لڑائی میں نہ تو ملوث ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے لئے تیار ہیں۔
اگر عمران خان سندھ کی”لسانی پچ‘‘ پر ”سیاسی میچ‘‘ کھیلنے آئے تو انہیں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اردو بولنے والوں سے زیادہ توقعات رکھنا انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی تین‘ چار حصوں میں تقسیم ہیں۔ وہ بے چارے تو اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو عمران خان کی کیا مدد کریں گے؟ اردو بولنے والے عمران خان کے حق میں بیان ضرور دے سکتے ہیں لیکن صرف بیانات کی ”گولہ باری‘‘ سے عمران خان سندھ کی جنگ کیسے جیت سکتے ہیں؟۔
آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی سندھ پر گرفت بہت مضبوط ہے۔ وہ رائے عامہ تشکیل دینے والے دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنمائوں سے ہر وقت رابطوں میں رہتے ہیں اور ان کی ہر بات غور سے سنتے ہیں۔ حلوہ پوری بھی کھا رہے ہیں۔ لنچ اور ڈنر کی محفلیں بھی سج رہی ہیں۔ طعام اور کلام بھی جاری ہے کیونکہ سندھ بہت بدل گیا ہے۔ حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ سندھ اب ماضی کی طرح تصورات کی دنیا میں نہیں رہتا۔ یہ حقیقت کی دنیا میں آ گیا ہے۔ سندھ ہر چیز کو مفادات کی عینک سے دیکھتا ہے۔ سندھ کو بہکانا‘ پھسلانا یا سبز باغ دکھانا اب آسان نہیں رہا۔ ماضی میں شاید ایسا ہو جاتا ہو‘ لیکن اب نہیں۔ سندھ مول تول کرنے میں بھی ماہر ہو گیا ہے اور جوڑ توڑ میں بھی سب سے آگے ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے نام پر پی پی رہنمائوں کو وہ اختیارات مل گئے ہیں جو کبھی ڈکٹیٹروں کو حاصل تھے۔ سندھ کی سیاست میں آبپاشی کے پانی کی وافر سپلائی‘ رعایتی نرخوں پر بیج اور کھاد کی فراہمی ‘ زرعی ادویات کی کم قیمت پر دستیابی‘ فصلوں اور گنے کی خریداری اور مارکیٹ کمیٹی پر پیپلز پارٹی کا کنٹرول۔ یہ سب چیزیں عمران خان کے لئے بڑی رکاوٹ بنیں گی جبکہ بلدیاتی اداروں کو پیٹ بھر کر فنڈز ملنا الگ ”کمالات‘‘ ہیں۔ وہ بھی پیپلز پارٹی کی قیادت سے خوش ہیں۔ یہ زمینی حقائق ”بیرونِ سندھ‘‘ سے ”اندرونِ سندھ‘‘ آنے والوں کی آنکھیں کھول سکتے ہیں۔ اتنے بھاری بھرکم تجزیوں کے بعد عمران خان سندھ میں آصف زرداری سے کیسے لڑیں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ زبان‘ ثقافت اور کلچر سے دوری کی دیواریں پہلے ہی کھڑی ہیں۔ عصبیت کے بتوں کی پوجا ہو رہی ہے۔ بعض اداروں پر یہ بھی الزام لگتا ہے کہ وہ سندھ کے لئے کچھ اور سوچتے ہیں‘ اور پنجاب کے لئے کچھ اور۔ وفاقی اداروں کی کارروائیوں کا سندھ کے لئے الگ ہی ”فارمولا‘‘ طے ہے۔ اگر عمران خان نے تقریر برائے تقریر کے طور پر یہ بات کی ہے تو خان صاحب کی تقریر کے آخری جملے سے بہت مزا آیا‘ لیکن پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کو شک کا کوئی فائدہ نہ دیا اور وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر تحریک انصاف کو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد میں نماز پڑھنے کو کہا۔ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کی یہ دوریاں آنے والے مزید بڑھتی نظر آ رہی ہیں اور یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ سندھ کا میدان عمران خان کے لئے ”حلوہ‘‘ ثابت نہیں ہو گا۔ ایسا ممکن نہیں کہ وہ لاڑکانہ‘ دادو اور شکار پور کو بنی گالہ بنا سکیں۔ یہ ان کے لئے بنجر زمین ہے‘ اسے ہموار کرنے اور یہاں ”سیاسی کھیتی باڑی‘‘ کے لئے عمران خان کو سخت محنت کرنا پڑے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو 2013 کے عام انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹ ملے۔ سندھ میں بھی ان کی مقبولیت کا گراف بادلوں کو چھو رہا تھا۔ تجزیہ کار بھی حیران تھے کہ جن کے امیدواروں کو کوئی نہیں جانتا‘ وہ پارٹی بھاری تعداد میں ووٹ کیسے حاصل کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ عمران خان کا کمال تھا‘ لیکن چار سال میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ تحریک انصاف نے اس عرصے میں سندھ تو کیا کراچی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس دور میں عزیز آباد سے 32 ہزار ووٹ حاصل کرنا ایک بڑا کارنامہ تھا‘ لیکن سندھ سے 60 لاکھ سے زائد ووٹ لینے والے عمران خان نے دوبارہ یہاں کا رخ ہی نہیں کیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں کہ ان کو ووٹ دینے والوں کے حالات کیا ہیں۔ اسی طرح کراچی میں کوئی قابل ذکر سرگرمی نظر نہ آئی اور پھر آہستہ آہستہ سندھ کے” انصافی رہنما‘‘ پارٹی چھوڑتے چلے گئے۔ سندھ کے عوام بھی تحریک انصاف کو ایک خواب سمجھ کر بھول گئے اور اب تحریک انصاف سندھ سے تقریباً آئوٹ ہو چکی ہے۔
آصف علی زرداری کے مخالفین بھی مانتے ہیں کہ اُن کے جمے ہوئے قدموں کو ہلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں تھوڑا اور صبر کر لے تو مسلم لیگ (ن) میں متوقع ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات سے لگتا ہے کہ تحریک انصاف انتظار نہیں کرنا چاہتی، حالانکہ حالات تو خود بخود بدل رہے ہیں۔ ان کو فطری طور پر تبدیل ہونے دینا چاہیے۔ کسی قسم کی مداخلت سے معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان حالات سے فائدہ کون اٹھاتا ہے اور یہ حالات کسے پسپائی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو یہ ضرور بتانا پڑے گا کہ وہ سندھ میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button