تازہ ترینمضامین

چترال میں کاروبار زندگی تباہی کے دہانے پر

کسی بھی ملک کا معیشت اس کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پیارے ملک پاکستان میں اس پر توجہ کوئی نہیں دیتا۔ چترال جیسے دور افتادہ علاقے کے لیے تو معاشی طور پر مستحکم ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ چترال میں قابل کاشت زمین 15سے 20 فیصد ہے اور یہاں کی زیادہ تر آبادی کا انحصار نوکریوں اور کاروبار پر ہے۔ نوکری حاصل کرنا ہر کسی کی بات نہیں اس کے لیے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط سفارش اور کھبی کھبار رشوت دینے کی ضرورت پڑتی ہے،  جو ایک عام چترالی کے دسترس سے باہر ہے۔ چترال کی آبادی تقریباً 6لاکھ ہے اور آبادی کے بڑھتے ہوئے ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جہاں ایک طرف زرعی پیداور ناکافی ہے تو لوگ مختلف کاروبار کرکے اپنی گزر بسر کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کی نااہلی سے چترال کئی دہائیوں سے کاروباری تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے اور کاروبار زندگی تباہی کے دہانے پر ہے ۔

چترال میں کاروباری تباہی کےکئی وجوہات میں سے بڑی وجہ بجلی کا مسئلہ ہے جو کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اس مسئلے سے ہر چترالی متاثر ہے۔ کاغذات کے فوٹو کاپی سے لیکر ہسپتالوں میں ایکسرےتک، موبائل چارجنگ سے لیکر ویلڈنگ وغیرہ تک کا کام جہاں بجلی کے مرہون منت ہے وہاں ان کاموں کے لیے جنریٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس سے ماحول میں  شور کی آلودگی کے ساتھ لوگوں میں چڑچڑاپن بڑھتا جا رہاہے۔ چترال میں بجلی کا صورت حال کچھ اس طرح ہے۔

08:00 صبح:        بجلی آگئی
08:10 صبح:       بجلی چلی گئی۔ اس کے بعد بجلی ایسی چلی جاتی ہے کہ شام سات بجے آجاتی ہے اور آنے کے بعد 30 منٹ کے اندر گویا تھک جاتی ہے پھر چلی جاتی ہے اور رات کے 10 سے 11 بجے تک واپس آجاتی ہے اور رات کے آخری پہر پھر غائب ہو جاتی ہے۔

رات کے وقت بجلی سے گھریلو صارفین مستفید ہوسکتے ہیں لیکن کاروبار سے منسلک افراد کو بجلی کی اس موجودگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ چترال کے منتخب نمائندے پشاور اور اسلام آباد میں بیٹھ کر ذرہ برابر بھی اس بات کو سمجھنے سےعاری ہیں کہ چترال میں ایک چھوٹا کاروباری جو کہ فوٹو اسٹیٹ کا مشین چلا رہا ہوتا ہے اور اپنے گھر بار کی پرورش کرتا ہے کو بجلی کی کتنی ضرورت ہے؟  یہی منتخب نمائندے جب چترال (کسی وجہ سے) تشریف لاتے ہیں تو عوام کو طفل تسلیاں دیتے ہیں کہ گولین میں بجلی گھر بن رہا ہے جوکہ ہمارے بجلی کے ضروریا ت کو پورا کرے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کیا واقعی اس بجلی گھر سے چترال کو بجلی دی جائے گی؟ کیا وزیر اعظم کا یہ اعلان ایک سیاسی اعلان تو نہیں تھا؟ اگر بالفرض اس بجلی گھر سے چترال کو بجلی فراہم کر دی جاتی ہے تو اس میں کتنا وقت اور لگے گا؟ ان تمام سوالات کے جوابات ہمیں ہمارے منتخب نمائندے ہی دے سکتے ہیں۔

صوبے میں برسراقتدار پارٹی کے چترال سےنامزد خاتون ایم پی اے جوکہ چترال ٹاؤن ہی کے رہائشی ہیں آئے روز مختلف دیہات میں جاکر بجلی گھروں کا افتتاح کرتے ہیں کیا وہ اپنے حکومت سے مطالبہ نہیں کرسکتے کہ بڑا نہ سہی ایک دو چھوٹے بجلی گھر ٹاؤن میں کاروباریوں کے ضروریات کو مدنظر رکھ بنا یا جائے۔ تاکہ چترال کے کاروباری حضرات سی پیک منصوبے سے کما حقہ مستفید ہوسکیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پاکستان کے کاروباری مگرمچھ چترال کے مارکیٹ پر قبضہ کریں گے اور چترال ان کے ساتھ مزدوریاں کرنے پر مجبور ہونگے۔

چترال چیمبر آف کامرس اور تجار یونین کو آگے آنا ہو گا اور چترال کے کاروباری طبقے کی نمائندگی کرنی ہوگی اور ساتھ ساتھ ایسے طریقے اپنانے ہونگے جس سے بجلی کے اس سنگین مسئلے کے ساتھ ساتھ دیگر کاروباری مسائل کا بھی ادراک ہوسکے۔ یہاں پر چترال ٹاؤن کے کاروباری بھی کچھ اقدامات کریں اور اپنے سسکتے ہوئے کاروباری ساکھ کو بچانے کی کوشش کریں۔ اگر سیالکوٹ میں کاروباری طبقہ اپنے لیے الگ ائیر پورٹ اور ائیر لائن بنا سکتے ہیں تو ندی نالوں کی اس سرزمین میں چترالی کاروباری حضرات اپنے لیے ایک بجلی گھر نہیں بنا سکتے۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button