تازہ ترینمضامین

الیکشن نامہ..تحریر۔۔ظفراللہ پرواز بونی چترال

دنیا کی دیگر جمہوری ملکوں کی طرح پاکستان میں الیکشن کا انعقاد کافی زور و شور سے کرایا جاتا ہے۔اگر چہ الیکشن کے ثمرات بقدرِ کھانے میں نمک ہی عوام کو ملتی ہے لیکن اس الیکشن کی بنا ہم جمہوری قوموں کے صفوں میں ضرور شمار ہوتے ہیں۔ اور اس کی ہی بدولت ہم اپنی بقا کے لیے ائی۔ایم۔ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں سے قرضہ ری شیڈول کی مراعات سے مستفید ہوتے رہتے ہیں اور ان ہی قرضوں کی بنا ہماری اشرافیہ اور بیوکریسی کی شاہانہ زندگی کی شہ خرچیوں میں مزید مدت کے لیے چل سکتی ہیں۔۔۔۔۔اور ادائیگی میں خونِ غریب سے کچھ نہ کچھ ہوتی رہتی ہے ۔اور اکثر اسی قرضہ سےقبل از وقت حکومتیں گرانے دوبارہ الیکشن کے لیے صف بندیاں کرنے اور عوام کو ورغلانے کے بعد دوبارہ الیکشن کے فوائد سے عوام کو بہکانے یہی رقم قرضہ کام آتی ہے۔اور الیکشنوں سے جی بھرے ہوئے عوام کو ایک بار پھر الیکشن کے لیے ری چارج کیا جاتا ہے۔چونکہ موجودہ الیکشن بھی اس عمل کی ایک کڑی تھی اور اس ضمن میں چترال کے دو ضلعوں میں ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن کا انعقاد ہوا۔لیکن 8 فروری میں الیکشن کا نتیجہ حیات بخش قوتوں کے منشاء کے برعکس وہی جیت گئے جو ،،غالب کے طرفدار نہ تھے،، حالانکہ حفظِ ما تقدم کے طور پر ان پر پارٹی نام کی استعمال پر قدغن اور پارٹی نشان کی استعمال بھی چھین لی گئی تھی ۔گویا ان کو بے نام و نشان چھوڑ دیا گیا تھا۔ پارٹی قائدین سخت سزاوں میں زندان میں اور کارکناں پکڑ دھکڑ میں ہراسان ائیے روز پرچے پہ پرچے کٹوانے کا بازار گرم کرنےکے ساتھ ساتھ ورکر اور مقامی قائدین کی وابستگیاں نہ صرف بدلوائے گئے بلکہ وابستگی چھوڑنے والے ورکروں کے لیے بھی بطورِ جال علحیدہ پارٹی بنوانے کا عمل بھی ان قوتوں ایماء سے بنے۔ لیکن ان سب کارستانوں کے باوجود حیات بخش قوتوں سے عوام نے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے ان کے سوچ کے برعکس پی ٹی آئی کی جیت کو نا قابل تسخیر بنا دی ۔ظلم و جبر کے زنجیروں سے بچے ہوئے پارٹی ورکر صرف سوشل میڈیا کے توسط سے کارکناں کو یکجا کرنے اور گرمانے میں دن رات کام کیے اور نہ صرف پارٹی کو مضبوط کیا بلکہ دیگر عوام کو بھی اپنے آواز کے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کامیابی کی بڑی وجہ حیات بخش قوتوں کی جانب سے بے گناہ کارکنوں پر غیر قانونی ریاستی طاقت کی استعمال کا ری ایکشن تھا جو پارٹی کے علاوه دیگر عوام کو بھی پی ٹی آئی کی صف میں کھڑا ہونے کی وجہ بنی اگر چہ حیات بخش قوتوں کا ہدف عمران اور العمران پر کاریگر نہ ہوا لیکن ان کے نشانے پر خفیہ طریقے سے پاکستان پیپلز پارٹی چترال بھی ہدف تھی اور اس میں یہ قوتیں سو فیصد کامیاب ہوئے لیکن اس کے باوجود پی پی پی ذاتی محنت اور صلاحیتوں کی بل بوتے پر مستقبل کےلیے اپنا وجود باقی رکھنے میں کامیاب رہے۔اس کا کریڈٹ جیالوں کے علاوه اپر چترال کا صوبائی امیدوار سراج علی خان ایڈوکیٹ اور فضل ربی ایجنئر امیدوار قومی اسمبلی کے علاوه سیلم خان سابق صوبائی وزیر کو جاتی ہے ۔ان کی الیکشن میں حصہ داری اور کارکردگی یہ ثابت کیا کہ ،،زرا نم ہو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ،، اس الیکشن میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کے علاوه کسی دوسرے پارٹی کو ضلع چترال میں اب باری دور تک دیکھائی نہیں دیتی ہے۔کیونکہ جمیعت علماء اسلام اگرچہ طلحہ محمود کے ذریعے خریداریِ ووٹ کا جوہر دیکھا کر ووٹ حاصل کی لیکن ائیندہ کے لیے اس بدنامی کو صاف کرنا چترال میں مشکل نہیں بلکہ ناممکن ثابت ہوگا اور دوسرے پارٹی مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی اور پارٹی امیدوار قومی اسمبلی شہزادہ افتخار الدین کی صلاحتیں الیکشن کے لیے کار امد تھی لیکن شہباز شریف کی سیاسی مصلحت پسندی عوام کا ن سے بیزاری کا سبب بنی لیکن جو تھوڑی بہت ووٹ ،،ن،، لیگ کے ترازو میں ائیے وہ محض افتخار الدین کی ذاتی کارکردگی کی وجہ تھی ۔البتہ ان کو پارٹی ووٹ اس وقت شمار کیا جاسکتا جب اسی پارٹی کے صوبائی امیدوار کے حصے میں کچھ آتے اس دوران حضرت شیخ رشید کی بات یاد اتی ہے کہ اس نے ،،ن،، سے ش،،کی پیشنگوئی اپنی دورِ حکومت میں ظاہر کی تھی۔اگر واقع شیخ کی پیشنگوئی درست ثابت ہوکر ،،ن،،سے ش،، نکلتا یا کم از کم اپنی سیاسی پیاس بھجانے واسطے خود شہباز مسلم لیگ،،ق،، میں شامل ہوتا تو کم ازکم ،،اس گھر کو آگ نہ لگتی گھر کی چراغ سے،،

پاکستان زندہ باد

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button