تازہ ترینمضامین

سڑکوں کی تعمیرات کے ٹھیکیدار متوجہ ہوں..پیر مختار نبی چیئرمین تحریک تحفظ حقوق چترال

یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں اچھا کام بھی اس بھونڈے انداز میں کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کیلئے الٹا وبال بن جاتا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ این ایچ اے اور دیگر متعلقہ ادارے اور محکمے چترال کے مختلف مقامات پر روڈ انفرا اسٹرکچر پر کام کر رہے ہیں۔ کہیں سڑکوں کی توسیع کا کام جاری ہے اور کہیں مرمت کا کام ہو رہا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سڑکیں اور پختہ و پائیدار روڈ ہی آج کے اس دور میں تعمیر، ترقی اور خوشحالی کا پہلا زینہ ہیں۔ ہم بھی گزشتہ کئی سالوں سے اس حوالے سے چترال کے طول و عرض میں سڑکوں کی ناگفتہ بہ صورحال کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کئی کمپین بھی ”روڈ ہمارا حق ہے“ کے عنوان سے ہم کرتے رہے ہیں اور سڑکوں اور روڈز کی تعمیر، توسیع اور مرمت آج بھی ہمارے مطالبات میں سر فہرست ہے۔

چترال میں روڈ انفرا اسٹرکچر کی حالت زار کسی سے مخفی نہیں۔ بروغل، یارخون، شاہ سلیم، شندور، ارندو، دوکلام سے لیکر لواری تک چترال کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سڑکوں کی ایسی افسوسناک حالت ہے کہ اس کی تفصیل آج کے اس دور میں ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کیلئے انتہائی قابل شرم ہوگی۔ سڑکوں کی اسی خستہ حالی کے باعث ہمارے بچے تعلیم سے محروم ہیں، ہمارے بیمار بر وقت صحت کے مراکز اور ہسپتالوں تک صحیح سالم نہیں پہنچ پاتے اور بے شمار لوگ یوں سمجھ لیجئے کہ ان کھنڈر راستوں کے باعث بے موت ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پھر کاروبار کیلئے سڑکوں کی جو اہمیت ہے، اس کے بیان کی تو ضرورت ہی نہیں۔ ایسے میں مناسب روڈ انفرا اسٹرکچر کے بغیر ہم بھلا کیسے ترقی کا خواب دیکھ سکتے ہیں……..

یہ امر خوش آئند ہے کہ کہیں کہیں (اگرچہ یہ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہے) سڑکوں کی توسیع و مرمت ہو رہی ہے، مگر بد قسمتی دیکھئے کہ ایک تو اس کام میں کرپٹ، خیانت کار اور بد دیانت و حرام خور ٹھیکیدار ناقص میٹریل استعمال کرتے ہیں، جو کہ چترال کے کئی صحافی حضرات، بالخصوص نڈر و بے باک صحافی گل حماد فاروقی صاحب بھی ڈنکے کی چوٹ پر بے نقاب کر کے حرام خور ٹھیکیدار مافیا کےزیر عتاب اور دھمکیوں اور تشدد کا شکار بن چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے ایک اور غلط روش یہ سامنے آئی ہے کہ تعمیرو مرمت کے اس کام کے دوران احتیاط کے تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ ڈائنامائٹ لگا کر چٹانوں کو توڑا جاتا ہے، جس سے سڑک متعلقہ مقام پر وسیع تو ہوجاتی ہے مگر اس عمل کے دوران پہاڑ کئی جگہ سے ڈیمیج ہوکر رہ جاتا ہے، اب متعلقہ کنسٹرکشن کمپنی ڈائنامائٹ کرکے آگے بڑھ جاتی ہے مگر کچھ دن بعد یا پھر کسی معمولی زلزلے کے نتیجے میں پہاڑ کے متعلقہ ڈیمیج حصے اچانک گر کر حادثات کا باعث بن جاتے ہیں۔

گزشتہ سال گلگت سائیڈ پر ایسے کئی حادثات میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ریکارڈ پر آچکا ہے اور اب ایسے حادثات چترال کی طرف بھی رونما ہو رہے ہیں۔ میری متعلقہ کنسٹرکشن کمپنی اور ٹھیکیداروں سے گزارش ہے کہ وہ از راہ کرم حد درجہ احتیاط سے اور پوری دیانتداری سے کام لیں، اپنے کام پر چیک رکھیں، ایسا مت کریں کہ پورا پہاڑ لرزا کر آگے چلے جائیں اور پیچھے وہ پہاڑ کسی کے خاندان کے واحد کفیل پر گر اس کے پورے خاندان پر قیامت ڈھادے۔

ہم ابتدائی طور پر ان کمپنیوں سے ہمدردانہ اپیل کر رہے ہیں، اگر انہوں نے اس گزارش پر کان نہیں دھرے اور ایسے حادثات خدا نخواستہ پھر رونما ہوئے تو انہیں ہم قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ امید ہے ہماری گزارشات پر کان دھرے جائیں گے۔
پیر مختار نبی چیئرمین تحریک تحفظ حقوق چترال
#سوشل_میڈیا_ٹیم_ٹی_ٹی_ایچ_سی

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button