تازہ ترینمضامین

کہوار موسیقی میں اک چمکتا ہوا نام بابافتاح الدین۔ ۔۔تحریر۔۔یوسف زیب

چترال گولدور میں عرفان الدین عرفان صاحب کے مکان کے کمرہ نمبر 12 میں چند ہم خیال دوستوں کیساتھ ملکر محفل موسیقی میں گانے والے اس نوجوان کے بارے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ نو جوان آگے جاکر بابا فتح کے نام سے کہوار موسیقی میں اک چمکتا ہوا نام ہو گا۔ 1972ء سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والا فتاح الدین کو چترال بھر میں لوگ عرف عام میں بابا فتاح کے نام سے جانتے ہیں۔آپ کو چترال کے لوگ کہوار میوزک و موسیقی میں اک نئے سوز و ساز کیساتھ کہوار گیت گانےپر بابا کا ٹائٹل دیا گیا۔جوکہ آپ کی شناخت بن کر رہ گیا۔ آپ وہ گلوگار ہیں جسے چترال کے لوگ محبت سے بابا فتاح نام سے پکارتے ہیں۔

بابا فتاح الدین 1952ء میں چترال موڑدہ میں چرویلو سراج الدین کے ہاں موڑدہ چترال میں آنکھ کھولی۔آپ ماں کی طرف سے مرزا غفران خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔آپ کی ماں مرزا لیفٹیننٹ غلام مرتضی کی بڑی بیٹی تھی۔آپ کے والدصاحب اوویر پرپیش کے شاغوٹے قبیلے کے مشہور زمانہ حکیم شاہبمبار کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔بچپن میں توتلاپن کی بناء پر سارے گھر والوں کی توجہ کا مرکز رہا۔عہد شباب میں قدم رکھتے ہی گائیکی کو لیکر پوری چترال میں تین دہائیوں تک آپ کے نام کا ڈنکا بجتا رہا۔
آپ نے اپنے ابتدائی تعلیم کا اغاز گورنمنٹ سٹیٹ پرائمری سکول چترال سے کیا۔آپ کے نانا لیفٹیننٹ مرزا غلام مرتضی نے آپ کو سکول ہذا میں داخل کیا۔آپ کی تعلیم و تربیت پر نانا نے بھر پور توجہ مرکوز کیا۔آپ نے 1972ء میں گورنمنٹ ہائی سکول چترال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد آپ نے ڈسٹرکٹ ہسپتال چترال میں بطور میڈیکل ٹیکنیشن سات سال تک رضاکارانہ طور پر کام کیا۔
آپ1978ء میں ڈسٹرکٹ ہسپتال چترال میں بطور ٹیکنیشن بھرتی ہوے۔ بعد ازاں آپ نے بطور ڈینٹل ٹیکنیشن بھی کام کیا اور 2012ء کو بطور سینئر ٹیکنیشن 60سالہ مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرمنٹ لے لی۔
بقول شاعر
وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں
یارب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں۔
آپ کے خاندان سے چچا رستم علی شاہ چرویلو بھی مقامی سطح پر گایا کرتے تھے اور محمد نادر خان (المعروف چرویلو خان) کے قریبی دوست تھے۔
آپ کہوار گائکی و گلوکاری کے وہ نام ہے۔جس نے تقریبا تین دھائیوں تک کہوار موسیقی کی دنیا پر راج کیا۔آپ نے دو سو سے زیادہ کہوار گانے گائے۔آپ نے اس دور میں کہوار موسیقی کا علم بلند کیا جس دور میں میوزک کا نام لینا لوگ معیوب سمجھتے تھے کیونکہ ملکی سطح پر افغان جہاد اور ضیاء اسلامائزیشن عروج پر تھا۔
آپ کو امیر گل امیر صاحب،فخر الملک صاحب،گل نواز خاکی صاحب اوراژدبار خان صاحب کے ساتھ محفل موسیقی میں گائیکی کا شرف حاصل ہے۔آپ کی محفل میں مشہور ستار نواز چئرمین شوکت علی صاحب،سلطان غنی صاحب ،جیرکیں کے ماہر پلئیر عبد الکریم اور ولی صاحب ہوتے تھے ۔
بقول غالب
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
کے مصدق
اپنے ہم عصر موسیقاروں میں بابا فتاح کو استاد کامقام حاصل ہے باوجود اس کے آپ امیر گل امیر صاحب کے شاعری اور گل نواز خاکی صاحب کی گائیکی کو کہوار موسیقی کا گرو مانتے ہیں۔
آپ کہوار کلاسیکل اور پوپ موسیقی کو ملا کر اک نیا طرز اپنایا جسے عوام میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
بقول ناصر
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان
میرے تو دل میں اتر گیا وہ
کے مصداق آپ کے گائے ہوئے گانے آج بھی صدا بہار گیت کی صورت میں سنے جاتے ہیں ۔
آپ کو آمیر گل صاحب کے یہ گانے سب سے زیادہ پسند ہے۔جسے آج بھی گنگناتے ہوئے وہ مسحور ہو جاتے ہیں۔
دنیا کیا گانی آلین بوئے کل اچی بہچور
دنیا کیا خوش رنگ اشناریو تانتے مو جوشور
فانی دنیا تماہو سورہ فان دیتی شاخسور
اجلو ہوستہ کیاوت شیرین ژان کی ہوئے مجبور۔
کہوار گائیکی میں سریلی آواز کو لیکر کئی ایوارڈ اپنے نام کئے۔جن میں فخر چترال ایوارڈ سے لیکر کمال فن ایوارڈ حتی کہ میڈیکل فیلڈ میں صوبائی پیرا میڈیکل ایسوسیشن کی طرف سے آپ کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی ملا۔
اظہار خاموشی میں ہے سو طرح کی فریاد
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کے مصداق آپ خاموش طبع،تنہا پسند،نازک مزاج اور نرم گفتار کے مالک انسان ہے۔عالم پیری میں بھی کہوار موسیقی کے نسبت عہد شباب جیسا ذوق و شوق آج بھی رکھتا ہے۔
الغرض آپ سدا بہار انسان ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو عمر نوح عطا فرمائے

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button