![](https://awazechitral.com/wp-content/uploads/2018/03/mubasher.jpg)
اللہ کے رسول ﷺ ایک دن ایک تنگدست پرشان حال شخص کوبھیک مانگتےہوئے دیکھا اور وجہ دریافت کی تو اس شخص نے معاشی تنگی کی شکایت کی اور مدد کی درخواست کی تو اللہ کے رسولﷺ نے مدد کی بجائے سوال کیا تمہارے گھر کوٕئی شے موجود ہے جو فروخت کر سکو ۔وہ شخص گھر گیا اور چند پرانے کباڑ اٹھا لایے تو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا انہیں بازار جا کے فروخت کر آو۔
وہ شخص کچھ مدت بعد چند درھم ہاتھ میں لیے رسول مقبولﷺ کے پاس آئے اور عرض کی یہ سکے ملے ہیں آپﷺ نے فرمایا ۔دوبارہ بازار جاو اور ایک کلہاڑا اور رسی خرید لاو۔وہ شخص بازار سے خرید لایے دیگر اصحاب بھی حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ محسن انسانیت کیا کر رہے ہیں ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ایک درخت کی شاخ توڑ دی اور دست مبارک سے کلہاڑے میں دستہ لگا دی اور اس شخص سے فرمایا جنگل جاو اور لکڑیان کاٹ کر بازار میں فروخت کرو اور تین دن بعد آکر مجھ سے مل لو۔
اس شخص نے حکم کی تکمیل کی اور تین دن بعد مسکراتے ہوئے حاضر خدمت ہوئے ۔حضور انور نے فرمایا کیسے ہو اور حالات کیسے ہیں ؟
بولا اے حضورصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا بڑا کرم ہے میرے گھر میں میری محنت کی بدولت خوشحالی آئی ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے پوچھا کیا یہ حال بہتر ہے کہ تم اپنی محنت کا پھل عزت سے کھاتے اور کھلاتے ہو یا وہ حال جو تم راستوں میں ذلیل ہوکے دوسروں سے بیھک مانگ کر کھاتے تھے ۔اس شخص نے کہا یقینا اللہ کے رسول ﷺ یہ حال بہت ہی بہتر ہے کہ میں کسی کا احسان نہیں اٹھاتا۔ رسول مقبولﷺ اس کی مدد خود بھی کرسکتے تھے اور صاحب ثروت اصحاب سے بھی کرواسکتے تھے لیکن ایک نوجوان میں محنت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے یہ راستہ اپنایا ۔ایک اور موقع پر ہاتھ ملاتے ہوئے ایک غریب شخص کے ہاتھ میں کھدرا پن اور سختی محسوس کی تو اس شخص نے سخت کام کرنے غربت اور کثیر العیال ہونے کا شکوا کیا تو
اللہ کے رسول نے ان کے ہاتھوں کو اپنے مبارک لبوں سےبوسہ دیا اور فرمایا ۔اللہ کریم ان محنتی اور حلال کمانے والوں ہاتھوں کو کھبی جہنم میں نہیں ڈالے گا۔
آج کل چترال میں جو بھکاری بنانے کا مہم جاری ہے وہ دیکھ کر رونا آتا ہے۔ حکومت نے مہنگائی کاطوفان لاکے یقینا غریب کا جینا محال کیا ہے ۔چند سالوں سے این جی اوز ۔فلاحی ادارے ۔مخیر حضرات لوگوں کو بے نظیری ۔پیکچ۔ امداد ۔صدقہ کے نام پر چوک چوک ذلیل کرتے آئے ہیں ۔ مگر رونا اس بات کا ہے کہ جن علماکو جو اس عظیم رسول ﷺ کے جانیشن ہونے کے دعودار ہیں وہ بھی اس فعل میں شریک ہیں۔ جنیہں سرکار کو ۔اداروں کو شخصیات کو انسانوں کی تذلیل سے روکنا چاہیے تھا ۔الٹا مدرسوں کے ہمارے بچوں بچیوں کو صدقات ۔وظائف کے پیچھے لگا کر اس غریب صحابی سے بھی مجبور بنا چکے ہیں کہ ان میں بلند نگاہی ،شاہین کا تجسس،خودی سب ستیاناس ہوتے جارہے ہیں ۔علماء حرام خوری ،سود خوری اور ملک میں سیکولر نظام کے آگے بند باندنھے کی بجإئے حکومت میں جاکے ان ہی کے ہاتھ مضبوط کر کے اسلامی نظام کوخواب بنا کر چند وزارت چند پارلمنٹ،چند لیز،چند ایکڑ جاگیر چند مدرسے اور مسجد کے لیے پلاٹس کے آگے ڈھیر ہوکر اسے غیبی مددکے مبارک نام سے یاد کرتے ہیں۔
اب یہ شوق جوش مار کے مدرسوں سے نکل کر عوام کو بھکاری بنانے کا منظم شکل اختیار کر چکا ہے۔ اور اس سونامی کے آگے شریف نفس علماء حق بھی وقتی مصلحت، پارٹی مفادکے ہاتھوں ںشکست کھا کر سکوت اختیار کر چکے ہیں جو مستقبل میں جمعیت اسلام کے لیے بہت بڑی تباہی لایے گی اور دنیا دار مولوی جو نہ قرآنی دلیل نہ حدیث پاک نہ بڑے علمااورفقہإ کے فتوے اور نہ مخلص علماء کا کہنا ماننے کو تیار ہیں ۔
پاکستان میں اخلاقی تباہی کا ایک نہ تھمنےوالا سلسلہ جاری ہے اور اس کے پیچھے بہت بڑی عالمی سازش نظر آرہی ہے ۔پاکستان کے ادارے جو ریاست اور عوام کے تحفظ اور بقا کے ضامن ہونے چاہیے تھے ان کو عوام کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے اورکوئی شخص ان پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔دوسرا علما کرام کی صفوں میں ایسے افراد کو داخل کیا گیا ہے جو ان کے وقار اور مذہبی تشخص کو روز بروز روندتے جارہے ہیں اور اسلامی نظام کے راستے سے دور ہٹا کر مغربی جمہوریت کے بچاریوں کے چنگل میں مکمل طور پر پھنسا چکے ہیں۔
اہل دانش چیخ چیخ کے کہہ رہے ہیں کہ لوٹ آو دین مبین کی طرف حضور کادین تمہارا منتظر ہے ۔ان کے ابابیلوں کو کہاں گدھ کے کام پہ لگا دی ۔
ستم تو یہ ہے تنقید کرنے والوں کو جو حق بات کہنا بتانا اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر نبھا رہے ہیں انہیں ۔۔۔۔ دین بیزار کے القابات سے نوازے جارہے ہیں۔ خدا کی قسم میں کسی بھی پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں اگر علماء برباد ہوئے تو امت برباد ہوگی ۔ اللہ کے رسول نے ایمان کے تین درجے واضٕح طور پر بتإئے ہیں ۔۔۔ برإٕئی کو ہاتھ سے روکو ۔جو قانونی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے اور چھوٹے لیول پر فرد کی بھی ۔دوسرا زبانی اور قلمی جہاد ۔۔۔ یہ دو نمبری کام ہم نبھاتے رہیں گے ۔آخری دل میں برا جاننا یہ ایمان کا آخری تبلغیانہ درجہ ہے۔ اب ان تین درجوں کو الٹ دین ۔۔۔ تو پہلے ظالم ۔فساد مچانے اور تحفظ کرنے والے دوسرے اس کی حمایت میں تقریر تحریر اور غیبی مدد والے اور تیسرے درجے میں خاموشی سے خوشی منانےوالے ۔اس لیے ہماری دل کی آواز ہے دو دن بعد الیکش بھی ختم ہوجائینگے ۔ اللہ کرے پاکستان بھر کی سیٹیں علماء جیت جائے لیکن زرادری ،نوازی ،پرویزی کے کاسے میں ہاتھ ڈال کر یہ ہونا قیامت تک ممکن نہیں جب تک حضور کے نقش قدم پر چل کر جرت کردار نہ پیدا کی جایے ۔لہذا اللہ کے رسول کی سنت پر عمل کروانے کے لیے خودی کی تعلیم دیجئے
۔اقبال نے کہا تھا۔
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانے مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا