تازہ ترینمضامین

متوقع شکست اور دھاندلی کا رونا دھونا ..تحریر: عبدالحفیظ

الیکشن 2024 اور تحریک انصاف کی متوق شکست کے اسباب

اہم سوال چترالیوں کو ووٹ کس کو دینا چاہئے؟
تحریک انصاف والوں نے متوقع شکست کو بھامتے ہوئے ابھی سے دھاندلی کا رونا دھونا شروع کر دیا ہے لیکن اصل معاملہ کچھ اور ہے، پی ٹی آئی والے خود بھی جانتے ہیں کہ انکی شکست کی اصل وجہ کیا ہو گی؟

در اصل پی ٹی آئی چئیرمین کے خلاف مختلف کیسز میں جرم ثابت ہونے کے بعد وہ سزا کاٹ رہے ییں اور انکے جلد رہائی کا کو ئی امکان بھی نہیں اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے ووٹرز شدید مایوس ہیں اور اس الیکشن میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور انکے متوقع شکست کی وجہ بھی یہی ہے باقی سب باتیں صرف سوشل میڈیا مِیں مرچ مصالحہ لگانے کیلئے ہیں۔ پی ٹی آئی ووٹرز یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر انکے کینڈیدیٹس جیت بھی گئے تو الیکشن کے بعد انکی منڈی لگ جائے گی اور وہ پی ٹی آئی کے چئیرمین پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے خود اپنے آپکو برائے فروخت پیش کرینگے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے ووٹرز گھر بیٹھنے کو ترجیح دینگے یا شدید مایوسی کے عالم میں دوسرے امیدواروں کو ووٹ دینگے.

جہاں تک چترال کی بات ہے تو یہاں بھی بہت سارے پی ٹی آئی ووٹرز مخالف پارٹیوں کو ووٹ دینگے اسکی کئی وجوہات ہیں۔ کچھ برادری کی وجہ سے کچھ قومیت کی بنیاد پہ اور کچھ لالچ میں آ کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دینگے۔ بہت سارے پی ٹی آئی کے ووٹرز لطیف صاحب سے اختلاف کی بنیاد پہ مخالف امیدواروں کو ووٹ دینگے۔ اسکا فا ئدہ شھزادہ افتخار صاحب اورطلحہ محمود صاحب کو ہوگا۔ میرے تجزیے کے مطابق شھزادہ افتخار اور طلحہ محمود میں کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔

اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ ہمیں ووٹ کس کو دینا چاہئے؟
یہ صرف ایک سوال ہی نہیں بلکہ اسے چترال کی مستقبل جڑی ہے. چترال کی ترقی کا دارومدار بھی اسی سوال میں پوشیدہ ہے۔ ہر بار کی طرح ہمیں اپوزیشن بنچوں میں بیٹھ کے چترال کو پیچحے دھکیلنے کے بجائے اس بار ترقی کو ووٹ دینا چاہئے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا

چترال کی ترقی کا دارومدار ان پروجیکس پہ ہے جنکی فزیبلٹی رپورٹ اور سروےاسوقت مکمل ہوئی تھیں جب وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور شھزادہ افتخار صاحب پارلیمنٹ میں چترالیوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ بعض پروجیکٹ توٹیندیرنگ کے مراحل میں تھے اور بعض کیلئے تو شھزادہ افتخار کی کاوشوں اور میاں محمد نواز شریف کی خصوصی دلچسپی اور چترالیوں کے ساتھ انکی بے پناہ محبت کی وجہ سے2017-2018 کے بجٹ میں پیسے بھی مختص کئے گئے تھے لیکن بعد میں پی ٹی آئی کی حکومت نے منی بجٹ کے ذریعے ان پروجیکٹس کو بجٹ سے ڈراپ کر دیا. یہی نہیں ہمارے گیس پلانٹس جیسے عوام دوست پروجیکٹ کو بھی ختم کر دیا جس کیلئے زمینات بھی اکوائر کی گئی تھیں اور پیمنٹ بھی ہو چکی تھیں۔ گیس پلانٹس بھی درآمد کر کے لاہور پہنچ چکے تھے لیکن آخری مرحلے پہ پی ٹی آئی حکومت نے یہ پروجیکٹ کینسل کر دیا۔

اگر چترالی قوم دوبارہ گیس پلانٹس اور دوسرے میگا پروجیکٹس جن کی تکمیل سے چترال کی تقدیربدل جائے گی چاہتے ہیں تو انہیں وقت شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے شیر کےنشان پہ ٹھپہ لگا کے شھزادہ افتخارالدین کو منتخب کرنا ہوگا. ان شاءاﷲ اس بار چترالی عوام ترقی اور خوشحالی کو ووٹ دیگی۔
وسلام, چترال کی ترقی کوووٹ دو،

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button