تازہ ترینمضامین

داد بیداد…ابو طبیلہ کا پشاور…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج قلعہ بالا حصار سے تحصیل گورکٹھڑی جا تے ہوئے مجھے تاریخ کا اور قدیم دور کا پشاور یا د آیا اور کئی تاریخی منا ظر ذہن کی سکرین پر نمو دار ہوئے میں نے سوچا اگر خدا کی قدرت سے ابو طبیلہ کو نئی زند گی ملی اور وہ پشاور آیا تو اس شہر کو پہچاننے سے انکار کرے گا مجھے ہنری منٹگمری لارنس کا ناول یادآیا ”رنجیت سنگھ کے ایک افیسر کی مہم جوئیاں“ یہ ناول ابو طبیلہ کے بارے میں ہے نا ول میں اس افیسر کی زند گی کے واقعات ہیں جو 1791ء میں اٹلی میں پیدا ہوا یوی ٹیبل کے نام سے پہچانا جاتا تھا فو جی افیسر تھا 1827میں مہا راجہ رنجیت کے دربار میں پہنچا اور رنجیت سنگھ کا وزیر بنا 1837میں رنجیت سنگھ نےاس کو پشاور کا گورنر مقر رکیا وہ اعلیٰ پایے کا منتظم تھا مگر بے رحم اور ظا لم بھی تھا معمولی جرائم پر لو گوں کو سولی پر لٹکا تا تھا اور کئی دنوں تک لاش کو لٹکا ئے رکھتا تھا 100سال گذر نے کے بعد بھی پشاور میں لوگ بچوں کو چُپ کرانے کے لئے ابو طبیلہ سے ڈراتے تھے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے جن برطانوی افیسروں کو پشاور کے راستے کا بل میں سفارتی مشن پر بھیجا ان افیسروں نے اپنی کتا بوں میں ایوی ٹیبل کے نظم و نسق اور اس کی سفا کی و بر بریت کا ذکر کیا ہے بہت ساری منفی پہلووں کے علا وہ اُس کا نا م تین بڑی خد مات کی وجہ سے لیا گیا ہے اُس نے دیکھا کہ پشاور شہر کی فصیل دو حصوں میں شہر کو تقسیم کر تی ہے اور دونوں حصے غیر محفوظ ہیں اُس نے فصیل کو مکمل کیا دونوں حصوں کو فصیل کے اندر لایا اور شہر کو حملہ آوروں سے محفوظ کیا دوسری خد مت یہ ہے کہ اُس نے تحصیل گور کٹھڑی میں اپنا دفتر قائم کر کے شہر کے دل میں اپنی جگہ بنائی، تیسری بات یہ ہے کہ اُس نے گلیوں کو کشا دہ کر کے نکا سی آب کا بہترین بند وبست کیا اور آج سے 186سال پہلے پشاور میں شہری سہو لیات کی منصو بہ بندی کی 186سال بعد قدرت کا کوئی کر شمہ اس کو دوبارہ پشاور لے آئے تو وہ حیرت اور تعجب سے اس شہر کو دیکھے گا انیسویں صدی میں شہر کے اندر جو سہو لیات میسر تھیں اکیسویں صدی میں ان سہو لیات کا نام و نشا ن نہیں رہا گنج اور کریم پورہ کے درمیاں سفرکرنا آج آسان نظرنہیں آتا چوک یاد گار اور گھنٹہ گھر کے درمیان چند قدموں کا فاصلہ ہے اس محتصر سی جگہ میں چار مقا مات پر گٹر کا پا نی سڑک پر بہہ رہا ہے مو چی لڑہ کی طرف جا نا محال لگتا ہے پیپل منڈی سے یکہ تو ت کی طرف جا نا ہوا تو قدم قدم پر رکا وٹوں کا سامنا ہو تا ہے کریم پورہ اور ہشتنگری کے درمیاں گلیاں اتنی تنگ ہو گئی ہیں کہ آدمی کو حیرت ہوتی ہے 1845میں مشکی آکر صبح سویرے چھڑ کاؤ کر کے جاتا تھا 2023میں مشکی بھی نہیں اس کا کوئی متبادل انتظام بھی نہیں ہوا میں نے شہر میں گھومتے ہوئے تانگے کی ضرورت محسوس نہیں کی مگر مجھے افسوس ہوا کہ گلیاں تنگ ہونے کی وجہ سے پرانی ثقافت نے دم توڑ دیا تانگہ گھوڑا اور کوچوان اس ثقا فت کی علا متوں میں نما یاں تھے ہندو ستان کے فلمی گیتوں میں تا نگہ لا ہوری کے ساتھ گھوڑا پشاوری کا ذکر آتا تھا کا بل کے لوک گیتوں میں پشاور سے کا لی قمیص لا نے کا ذکر ہوتا تھا جس پشاور کو فصیل کے ذریعے ابو طبیلہ نے حملہ آوروں سے محفوظ کیا تھا آج دنیا نے ترقی کر لی بجلی آگئی، گاڑیاں آگئیں، کمپیو ٹر آگیا سب کچھ آگیا اگر حملہ آور آیا تو پشاور کا محفوظ ہونا ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے ڈھکی، پیپل منڈی اور قصہ خوا نی کے خون ریز واقعات نے شہر کو لر زاکر رکھ دیا ہے ابو طبیلہ کا پشاور یاد آرہا تھا اس کی سفا کی بھی قانون کی حکمرانی کے لئے تھی اس کی منصو بہ بندی بے مثال تھی اس نے اٹلی سے آکر مثال قائم کی ہم اپنے گھر میں ہو کر کچھ نہ کر سکے۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button