تازہ ترینمضامین

بشارت ۔۔عالمی مفاد اورپاک اافغان تعلقات۔ تحریر ۔مبشرالملک۔

شروع دن سے ہی پاک افغان تعلقات کشیدہ رہے ہیں ۔افغانستان کے روسی بلاک میں ہونے اور بھارت سے گہرے تعلق کی بنا یہ فاصلے ہمیشہ بڑھتے گئے ۔یہاں تک کہ روسی یلغار کے بعد قدرت نے مہاجرین کی شکل میں لاکھوں افغانوں کو پاکستان ہجرت کرواکر ۔انصار مدینہ۔۔۔ کی تاریخ دہرا دی ۔ اللہ کے فضل وکرم اور جنرل ضیا اور آئی ایس آیی چیف کی گران قدر پالیسی کے سبب نہ صرف روسی خواب چکناچور ہوے بلکہ افغان قوم کے ساتھ بہترین حسن سلوک اور اسلامی بھائی چارے کی تاریخ چودہ سو سال بعد دہرا کر ان کے دلوں میں بھی ۔۔۔۔ پاکستان ۔۔۔ بسانے میں کامیاب ہوگئے۔ اگر چہ اس وقت بھی جو لوگ روسی رجیم کے ساتھی بنے ان میں ازبک۔ ہزارہ۔ اور اسلام بیزار قوتیں ان کے دست و بازو بن کے وہی رہے اور پاکستان کے خلاف پاکستان میں موجود انڈیا اور روس کے ایجنٹوں کے زریعے دہشت گرد دھماکے کراتے رہے اور ساتھ ساتھ سرخ انقلاب کے نعرے اور نوید بھی سناتے رہے۔ امریکہ بہادر بعد میں اپنی عالمی مفادات کے تحفظ کے لیے ہمارے اتحادی بلکہ سرخیل بنے رہے اور مکارانا چال سے آزادی کے مجاہدوں کو ایک امیر اور ایک جھنڈے تلے جمع ہونے نہ دیا اور ہم سادگی یا ۔۔۔۔ افغان ۔۔۔ ایران ۔۔۔ پاکستان ۔۔۔ کنفڈریشن کا خواب لیے مات کھا گئے۔ جنرل ضیاء کے بعد پاکستان میں سیاسی یتیمی کادور شروع ہوا تو افغان پالیسی کمزور ہوتی گئی۔روس کے انخلا کے بعد افغانوں نے روایتی بے اتفاقی کو مشعل راہ بنائے رکھا اور اس بے اتفاقی کے فصل کی ذرخیزی میں ہمارے اور بیرونی ۔۔۔ خلائی مخلوقات کی محنت شامل حال رہی۔ نواز دور میں پیر مجددی مرحوم کو ہوا میں اتارکر حکمت یار کا راستہ روکا گیا۔دوستم ۔مسعود کو جگہ دیا گیا ۔ اس تقسم در تقسیم کی پالیسی نے مایوس جہادی افغانیوں کو جہاد کے ثمرات سے نکال کر قتل وغارت ۔ اسلامی نظام سے دوری اور مایوسی کا راستہ دیکھا کر ۔۔۔ طالبان۔۔۔ کی دنیا بسا دی اس ۔۔۔ گورکھدندے۔۔۔ میں بھی ہمارے مرحوم ۔۔۔جنرل بابر کا کردار نمایان رہا۔ لگ رہا تھا افغانستان ہمارا ہی پانچواں صوبہ ہے ۔لیکن اتنی شاندار مواقع حاصل ہونے کے باوجود ہم واخان بارڈر سے ایران بارڈر تک اپنے بارڈر ہمیشہ کے لیے معاہدے کے تحت محفوظ بنانے سے بھی قاصر رہے کیونکہ ہماری دوربین نگاہیں کابل ۔ہرات ۔قندھار کی تسخیر میں جمی ہوہیں تھیں۔ مشرف دور میں اسلامی جذبے کی ہوا قومی مفاد میں ہوا ہوگئی ۔ اور ہمارے درمیاں نہ ختم ہونے والی نفرت امریکی استعمار کے آگے لیٹنے سے شروع ہوئی ہمارے پالیسی ساز اس چیز کا ادراک نہ کر سکے کہ سات سمندر پار سے آنے والی سپر پاور کو قلیل طالباں زیر بھی کر سکتے ہیں اور مستقبل میں اس ناراض اور لڑاکا پڑوسی کے ساتھ ہمیں ہی رہنا ہوگا۔ درمیاں میں گڈ اوربیڈطالباں کے تجربے نے بھی قوم اور ریاست کا بیڑا غرق کیے رکھا۔ اب فاتح سپر پاور کے بعد ۔طالباں کا سینہ۔۔۔ دشت لیلی۔۔۔ سے بڑا اور غرور ۔۔کے ٹو ۔۔۔ سے بلند جاچکا ہے ۔معیشت چینہ اور انتظامی قانون کی عمل درآمد کی وجہ سے عروج کی جانب گامزن ہے اور ہم روز بروز زوال پذیر ۔۔۔ قوم ان کی حکومت کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کیطرح کھڑی ہے اور ہماری قوم منتشر اداروں اور حکمرانوں سے بیزار۔ ایسے حالات میں ۔نہایت ہی ہوشیاری دانش مندی سے پاک افغان تنازعات حل کرنے ہونگے۔دشت گردی جو افغانستان سے ہورہی ہے وہ ہمارے پاکستانی دہشت گرد ہیں ۔لیکن طالباں کے اتحادی رہے ہیں ۔طالبان اگرانہیں زیادہ پابند کرتے ہیں تو یہ قوتیں دعیش جیسے عالمی دہشت گرد سے اتحاد بنا کر ان کے لیے بھی درد سر بن سکتے ہیں ۔افغانوں کو نکالنے کے جذباتی بیانات اور فیصلے بھی ہماری معیشت پر بہت برے اثرات ڈال سکتے ہیں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ان کے بڑے کاروبار اور سرمایہ لگے ہوے ہیں ایک ڈوبی معیشت کو اس فیصلے سے اور بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں لاکھوں افغان پاکستانی تہزیب تمدن میں رچ بس چکے ہیں اور پاکستان کے سفیر ہیں اس کے علاوہ افغاننسان میں موجود لاکھوں لوگ بھی ہمارے احسان مند ہیں ۔ایسانہ ہوجذبات میں آکر پھر غلط فیصلہ کر کے ہم پھنس جائیں اور وہ ہمارے گلہ کی ہڈی ثابت ہو۔ لگ یہ بھی رہا ہے کہ عالمی سفارت کار کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہیں ہمارے اندرونی معملاات میں ایسا نہ ہو کہ افغانستان کو ایک طرف سے دوسری طرف سے انڈیا کو اندرونی سیاسی خلفشار سے فایدہ اٹھا کر ہمیں نقصان پہنچانے کا پروگرام ہو۔ چین جیسے پڑوسی سے بھی ہم دور ہوتے جارہے ہیں ۔کہیں ہمیں گھیر کر مارنے کی سازش تو نہیں ہورہی? ۔لہزا ۔ہمارے پالیسی سازوں کو مذاکرات ہی کے میز پر باہمی مسائل حل کرنے ہوں گے زور زبردستی اور اپرشن مسائل کا حل نہیں ۔ہمیں افغانستان کو ایک ابھرتے ہوے پڑوسی سمجھکر پالیسی بنانا ہوگی حریف اور دشمن نہیں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button