تازہ ترینمضامین

داد بیداد …ووٹ کی عزت کا سوال ….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ایک سیاسی جما عت نے نعرہ لگا یا تھا ”ووٹ کو عزت دو“ اس نعرے کے بعد ووٹ کی عزت پر جو داغ لگائے گئے وہ ماضی میں کبھی نہیں لگے تھے 2018ء کے عام انتخابات، سینیٹ کے انتخا بات، پھر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد، پھر پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب میں ووٹ کو جس طرح بے آبرو کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی، ان واقعات میں سے بعض میں ووٹ کو بے لباس کیا گیا، بعض میں ووٹ کی عزت لوٹی گئی بعض میں ووٹ کا تیا پا نچہ کیا گیا پنجاب اسمبلی میں با ضابطہ طور پر ووٹ کا جنا زہ نکا لا گیا اور کہا گیا ”ووٹ کا جنا زہ ہے ذرا دھوم سے نکلے“ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ووٹ کی عزت کو پا مال کرنے کے بعد قافلہ آزاد کشمیر پہنچ گیا کشمیر کے بیس کیمپ میں کھرپ پتی امید وار تلا ش کر لیا گیا ہے ووٹ کی عزت یہ ہے کہ ”گڑ ڈالو میٹھا کر لو“ پنجا ب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے بال نو چنے کی خبر میڈیا میں آگئی تو ایک بین لاقوامی میڈیا ہاوس نے فوراً 1958ء کی ایک تصویر لائبریری کھنگال کر باہر لے آئی اوراپنے سامعین کو بتا یا کہ پا کستان میں یہ پا رلیما نی تشدد پہلی بار نہیں ہورہا ہے یہ اس ملک کی تاریخ کا ”اٹوٹ انگ“ ہے 1958ء میں جب بنگلہ دیش کا نام مشرقی پاکستان تھا ڈھا کہ کی پا کستانی اسمبلی میں معزز اراکین اسمبلی نے کر سی پھینک کر ڈپٹی سپیکر کو ہلا ک کیا تھا اُس وقت ایسی کسی واردات میں مر نے والوں کے لئے شہید کا خطاب بھی دریافت نہیں ہوا تھا چنانچہ ڈپٹی سپیکر قانون ساز اسمبلی کے معزز اراکین کے ہاتھوں مارا گیا اور شہید کا رتبہ بھی نہ پا سکا بقول فیض احمد فیص نہ مدعی نہ شہادت حساب پا ک ہوا دکھ کی بات یہ ہے کہ اسمبلیوں میں روز نئے نئے تما شے لگا نے والوں کو آج کل کے دور کی ظالم میڈیا سے بھی شرم نہیں آتی ان کو اتنا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم اسمبلی کے ایوان میں جو گل کھلا تے ہیں اس کی باز گشت رنگین تصویروں کے ساتھ ویڈیوز کی شکل میں دو منٹوں کے اندر 7ارب آبادی کی دنیا میں پھیل جا تی ہے، دنیا کے گورے اور کا لے ان تصویروں اور شرمناک خبروں کو دیکھ کر پا کستان کو جو گا لیاں دیتے ہو نگے وہ ظا ہر ہے دیتے ہی ہونگے تا ہم امریکہ سے جا پان تک، مراکش سے انڈو نیشیا تک اور فرانس سے بر طا نیہ تک دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پا کستانیوں کا سر جس طرح شرم سے جھک جا تا ہو گا وہ ہمیں بھی سنائی دیتا ہے نیو یارک، برلن، روم، لندن، جکارتہ، دوبئی، جوہنس برگ اور مدینہ منورہ سے پاکستانی فو ن، ٹویٹر، انسٹا گرام اور دیگر ذرائع سے اپنا سرمارے شرم کے جھکنے کا جو ذکر کر تے ہیں تو ہم گھر بیٹھے پانی پانی ہو جا تے ہیں ووٹر کو اس تو ہین آمیز سلوک کا احساس ہوتا ہے مگر جس نے ووٹ لیا تھا اُس کو ذرہ برابر احساس نہیں ہو تا علا مہ اقبال نے ایک صدی پہلے شاید 1911یا 1912ء میں کہا تھا اے وائے نا کا می متاع کا روان جا تا رہا کاروان کے دل سے احساس زیاں جا تا رہا اب پیچھے مڑ کر ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ کس نے لگا یا تھا؟ اُس نے ووٹ کو کس طرح عزت دی، اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخا ب کے لئے ووٹ ہو رہا ہے ووٹ دینے والے ہم جیسے نا خواندہ مجبو ر، مقہور اور پسما ندہ و پے ماندہ عوام نہیں معزز ایوان کے فاضل اراکین ہیں جن کو ہم جاہلوں نے 4سال پہلے ووٹ دیکر اسمبلیوں میں بھیجا تھا، خد شہ یہ ہے کہ فاضل اراکین اسمبلی ہمارے مخالف امیدوار کوووٹ نہ دیں، اس کا تدارک اور انسداد کرنے کے لئے معزز اراکین نے سوچا کہ ووٹروں کے ساتھ الجھنے کی جگہ اُمیدوار پر وار کیا جا ئے تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری چنانچہ ووٹ کو عزت دیتے وقت مخالف امیدوار پر مہلک وارکیا گیا جو خوش قسمتی سے اُس کے سر پر لگنے کے بجا ئے سیدھا جا کر اس کے بازو پر لگاشدید چوٹ آئی، پٹیا ں با ندھی گئیں سہارا دے کر زخمی بازو کیساتھ اُمیدوار کو معزز ایواں میں لا یا گیا مگر ووٹ کی عزت کا وار اتنا گہرا تھا کہ وہ مقا بلے سے دست بردار ہو گیا فیض نے یہ بھی کہا تھا جس خا ک میں مل کر خا ک ہوتے سرمہ چشم خلق بنی جس خار پہ ہم نے خون چھڑ کا ہم رنگ گل طنا زکیا چنا نچہ آج وطن عزیز پا کستان میں ووٹ کی عزت کا سوال ہے آج ہم جیسے بے چارے بھی کہتے ہیں ”ووٹ کو عزت دو“

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button