تازہ ترین

پر اسرار بیماری یا پولیو قطروں کا ری ایکشن ،آٹھ ماہ کی عمر کے جڑوان بھائی جان بحق ۔

چترال ( محکم الدین ) پر اسرار بیماری یا پولیو قطروں کا ری ایکشن ،آٹھ ماہ کی عمر کے جڑوان بھائی جان بحق ۔ والدکا واقعےکی انکوائری کا مطالبہ ۔ چترال شہر کے مقام گہتک

 

دنین میں گذشتہ روز خسرہ و روبیلا مہم کے دوران جڑوان بھائی محمد اور احمد پسران مجیب الرحمن عمر آٹھ ماہ کو پولیو کے قطرے پلائے گئے ۔ لیکن گھر پہنچنے کے بعد دونوں بچوں کو الٹیاں اور دست آنے شروع ہوئے ۔ والد مجیب الرحمن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ۔ کہ میرے دونوں بیٹے پولیو قطرے پینے سے پہلے ٹھیک ٹھاک تھے ۔لیکن پولیو

 

کے قطرے پلانے کے کچھ دیر بعد اچانک الٹیاں آنے شروع ہوئے ۔ اور دست جاری ہوئے۔ جس پر ہم نے انہیں فوری طور پر چلڈرن سپشلسٹ کو دیکھایا ۔ اور انہوں نے معائنے کے بعد ادویات جاری رکھنےکی ہدایت کی ۔ لیکن علاج کے باوجود الٹی اور دستوں کا سلسلہ نہ رکا ۔ بالاخر چوبیس گھنٹوں کے اندر ماں کی گود خالی ہو گئی ۔ جس سے ہمارا پورا خاندان شدید صدمے سے دوچار ہے ۔ اور یہ صدمہ ہمارے لئے نا قابل برداشت ہو چکا ہے ۔ کہ آخر کیونکر ہم نے اپنے تندرست جڑوان بچوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا موقع فراہم کیا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اس دردناک واقعے کی انکوائری ہونی چاہیئے ۔ اس حوالے سے انتظامیہ کی طرف فوکل پرسن اسسٹنٹ کمشنر چترال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن

 

بات نہ ہو سکی ۔ تاہم ای پی آئی کو آرڈنیٹر چترال لوئر ڈاکٹر فرمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بچوں کے المناک موت پر افسوس کا اظہار کیا ۔ لیکن انہوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی ۔ کہ پولیو قطرے پلانے کی وجہ سے ان بچوں کی اموات واقع ہوئی ہیں ۔ بلکہ یہ جڑوان بچے پیدائش کے بعد ہی کمزور اور نحیف تھے ۔ اور ان کو کئ امراض پہلے سے لاحق تھیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں ہزاروں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں ۔ لیکن کہیں بھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا ۔ اس لئے یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد

 

ہے ۔ کہ پولیو قطروں کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا ہے ۔ ڈاکٹر فرمان نے کہا ۔ گو کہ یہ مہم خسرہ اور روبیلا کی ویکسنیشن کیلئے ہے ۔ لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بچوں کو پولیو کے قطرے بھی پلائے جاتے ہیں ۔ کیونکہپولیو کے قطرے انسان کو مستقل اپاہج ہونے سے بچانے کا واحد علاج ہیں۔ جس کی بیماری اور جراثیم کو ختم کرنے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button