تازہ ترین

داد بیداد …..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ …..ہدف کے قریب

یمن کی بندرگاہ الحدیدہ پر 39اسلامی ممالک کی فوج دشمن کے خلاف لڑرہی ہے دشمن عیسائی، یہودی، برطانیہ، امریکہ یا اسرائیل نہیں یمن کے عوام ہیں اُن کی فوج حوثی ملیشیا ہے گویا 39مسلمان ممالک کی مشترکہ فوج ایک مسلمان ملک پر حملہ کر کے مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں سلیم صاحب نے غزل کے شعر میں اس کی طرف لطیف اشارہ کیا ہے ؂
مجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتہ نہیں
تیری داستان کوئی اور تھی، میرا واقعہ کوئی اور ہے
ہم مسلمان ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو دودھ اور کوئلہ کا فرق نہیں جانتی یہ وہ قوم ہے جو رات کو دن کہہ کر اُس پر ضد اور ہٹ دھرمی دکھاتی ہے یہ وہ قوم ہے جو 1919ء میں ترکی کوتین ٹکٹرے کر کے برطانیہ ، فرانس اور اٹلی کے درمیاں تقسیم کرنے کو اپنی فتح قرار دیتی تھی مصطفی کمال پاشا نے سازش ناکام بنادی ، عُلماء کے منصوبے کو خاک میں ملایا ، ترکی کو متحد کر کے دشمن کے قبضے میں جانے سے بچا لیا تو علماء اُس کے دشمن بن گئے ان کو عیسائی اوریہودی کا اقتدار قبول تھا مصطفی کمال پاشا کا اقتدار قبول نہیں تھا ان کو باور کرایاگیا تھا کہ خلافت عثمانیہ ،ترک اقتدار اور ترکی کے اتحاد سے برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی غلامی ہزار درجہ بہتر ہے اور علمائے کرام نے تسلیم کیا تھا 100سال بعد وہی صورت حال علمائے کرام کے سامنے ہے پاسدارانِ انقلاب ، حماس، حزب اللہ اور حوثی ملیشیا کے مقابلے میں علمائے کرام کو امریکہ اور اسرائیل کی غلامی دل و جان سے قبول ہے اور ہزار بار قبول ہے ؂
جنون کو خرد کا نام دیا، خرد کو جنون کہا
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
1950ء کے عشرے میں عربی ، فارسی ، اردو، بنگلہ اور دیگر مشرقی زبانوں میں کمیونسٹ انقلاب ، بالشویک انقلاب ، سویت یونین اور سوشلزم کے خلاف کتابیں آرہی تھیں وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمانوں کو ان کتابوں کی ضرورت تھی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کو سویت یونین کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے ان کتابوں کو ضرورت تھی 1979ء میں ایرانی انقلاب کے وقت تہران میں امریکہ سفارت خانے کو پاسدارانِ انقلاب نے یرغما ل بنایا تو امریکہ نے ایران کے خلاف کتابیں چھپوانے کا نیا سلسلہ شروع کیا امریکہ کا نیا دشمن ایران تھا پھر پاسدارانِ
انقلاب ، حماس اور حزب اللہ کو دشمنوں میں شامل کیا اب حوثی ملیشا بھی دشمنوں میں شامل ہے امریکہ اور اسرائیل اپنے ہدف کے قریب آچکے ہیں ہدف یہ ہے کہ اسرائیل کی سرحد بھارت کے ساتھ لگ جائے 1999ء میں نئی صدی کے لئے اسرائیل کا جو نقشہ بنایا گیا اس کو پروفیسر چوسو ڈوسکی (Prof.Chosso Dvosky) نے 2005ء میں شائع کیا تھا اس نقشے میں اسرائیل کی سرحد بھارت کے ساتھ لگی ہوئی ہے اُس سال عراق اور افغانستان پر امریکہ کا قبضہ ہوگیا تھا3سال بعد لیبیا پر امریکہ کا اقتدار مسلط ہوا رکاوٹوں میں شام، ایران ، مصر اور پاکستان رہ گئے یمن چھوٹا ملک ہے لیکن شام ،ایران اور حزب اللہ کو زیر کرنے کے لئے یمن پرامریکی قبضے کو ضروری خیال کیاجاتا ہے ہدف کے قریب آنے بعد مدد ملے گی عدن اور الحدیدہ کی دو بندرگاہوں پر امریکہ کا قبضہ اسرائیل کو اہم راستے فراہم کرے گا چنانچہ یمن پر 39مسلمان ممالک کے حملے کی کمان امریکہ کے ہاتھ میں ہے، امریکی جہاز استعمال ہورہے ہیں اسرائیلی پائلٹ ان جہازوں کواُڑا رہے ہیں یہاں قاری کے ذہن میں سوال اُٹھتا ہے کہ 39ممالک کی اسلامی فوج کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے خادم حرمین شریفین سلمان بن عبد العزیز خود اس فوج کی کمان کررہے ہیں اس فوج کا یمن پر حملہ سعودی عرب کا حملہ ہے امریکہ اور اسرائیل کا نام بیچ میں کہاں سے آگیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ افغانستان ، عراق ، لیبیا اور مصر میں بھی حملہ آور فوج کی کمان سعودی عرب کے ہاتھ میں تھی ترکی اور پاکستان سے بھی کام لیا گیامگر جنگ ختم ہونے کے بعد سب کو معلوم ہوا کہ یہ امریکہ کے مفادات کی لڑائیاں تھیں شام اور یمن کی لڑائی ختم ہونے کے بعد پتہ لگ جائے گا کہ یہ جنگ امریکہ کے مفادات کے لئے لڑی جارہی تھی مسلمانوں کی ناخواندگی ،ذہنی پسماندگی ، جہالت اور ایمان کی کمزوری سے امریکہ نے فائدہ اُٹھایا اسرائیل نے فائدہ اُٹھایا مگر ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت ‘‘ دشمن اپنے ہدف کے قریب پہنچ چکا ہے حزب اللہ ، حماس ، حوثی ملیشیا اورپاسدارانِ انقلاب کے خلاف امریکہ کی کامیابی پر سعودی عرب سے لیکر پاکستان تک جشن منایا جائے گا اس کے بعد ترکی اور پاکستان پر امریکہ او ر اسرائیل کا حملہ ہوگا تو پتہ چل جائے گا کہ دشمن اپنے ہدف کے قریب پہنچ چکا ہے اب اسرائیل اور بھارت کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملنے والی ہیں پاکستان میں 25مُکتی باہنیاں اس لئے بنائی گئی تھیں ڈاکٹر عبد القدیر خان اور میاں نوازشریف کو اس لئے زیر عتاب لایا گیا تھا چین کے ساتھ مشترکہ معاشی منصوبہ CPECکو اس لئے بند کیا جارہاتھا یمن کے محاذ پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف حوثی ملیشیا کی لڑائی مسلمانوں کی بقا کی لڑائی ہے عالم اسلام کے استحکام کی ایسی لڑائی ہے جو آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اگر اس لڑائی میں امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب کو فتح حاصل ہوئی تو پھر اگلی باری ایران، ترکی اورپاکستان کی ہوگی پر اسرائیل کی سرحد بھارت کے ساتھ ملے گی اللہ نہ کرے ، مگر ہماری خواہش ہوگی اور دُعا سے کچھ نہیں ہوگا ہمارا تعاون امریکہ اور اسرائیل کو حاصل ہے ہم نے اپنے فوجی دستے ان کو دیدیے ہیں ہم نے اپنا بہترین سپہ سالار بھی اُن کو دے دیا ہے گویا بقول سلیم ؂
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ میرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button