حا مد میر……….گٹر جرنلزم
یہ درست ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی وجہ سے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کی بڑی کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو برا بھلا کہنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ سب جانتے تھے ان کا کوئی صحافتی تجربہ نہیں پھر بھی انہیں ایک ٹی وی چینل نے اپنا ڈائریکٹر نیوز کیوں بنایا؟ ایک اور چینل نے انہیں اپنا گروپ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیوں بنالیا؟ ان پر بار بار جھوٹ بولنے کے الزامات لگتے رہے۔ 2010ء میں ائربلیو کا طیارہ اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا تو ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا کہ اس طیارے پر ایوان صدر سے فائرنگ کی گئی تھی۔ اس خوفناک جھوٹ پر ان کی کوئی باز پرس نہ ہوئی لہٰذا انہوں نے اس قسم کے دعوئوں کو ایک معمول بنالیا۔ کئی بار پیمرا نے انکے خلاف کارروائی کی۔ ان کا پروگرام کچھ عرصے کیلئے بند بھی ہوا لیکن مختلف ٹی وی چینلز ان کی خدمات حاصل کرتے رہے اور آج ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو’’گٹر جرنلزم‘‘ کے طعنے سننے پڑ رہے ہیں۔ 27جنوری 2017ء کو’’ایک انگریزی اخبار‘‘ میں ڈاکٹر شاہد مسعود کا نام لئے بغیر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے لکھا ہے کہ ’’مقبول اینکرز نے تواتر کیساتھ قاتلوں اور دہشتگردوں کو ٹی وی پر بولنے کا موقع بھی دیا اور ان سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا اور ہر قسم کی افواہ اور جھوٹ کو نشر کیا۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ایک ٹی وی اینکر تو ایسا بھی تھا جس نے ملالہ یوسفزئی پر حملے کو درست قرار دیا اور ایسے اینکروں کی’’گٹر جرنلزم‘‘ نے ہماری قومی ثقافت تباہ کردی ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس میں دلیل سے زیادہ غصہ حاوی ہے۔ وہ یہ لکھنا بھول گئے کہ جس میڈیا پر وہ دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگارہے ہیں یہی میڈیا خود بھی دہشت گردی کا نشانہ ہے اور پچھلے دس سال میں 120سے زیادہ میڈیا ورکرز مارے جاچکے ہیں۔ انہیں ملالہ یوسفزئی پر حملے کو درست قرار دینے والا اینکر یاد رہا لیکن اس اینکر کو بھول گئے جو 2009ء میں ملالہ یوسفزئی کو سب سے پہلے پاکستانی میڈیا پر لایا۔ انہیں موقع ملے تو خود ملالہ یوسفزئی سے پوچھ لیں کہ ملالہ کی حمایت کرنے پر کون کون سے ٹی وی اینکر کو دھمکیاں ملیں؟ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی فزکس کے پروفیسر ہیں، جب وہ سائنس کی بات کرتے ہیں تو اس میں منطق حاوی ہوتی ہے۔ انہیں یاد ہوگا کہ 2012ء میں خیر پور سے تعلق رکھنے والے انجینئر آغا وقار نے واٹرکٹ کے ذریعہ گاڑی چلانے کا دعویٰ کیا۔ جب پاکستان انجینئرنگ کونسل اور پی سی ایس آئی آر نے اس کے دعوے کو درست قرار دیدیا تو میں نے’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں آغا وقار کو پی سی ایس آئی آر کے سربراہ ڈاکٹر شوکت پرویز اور ڈاکٹر عطاء الرحمان کیساتھ بٹھا کر بحث کرائی۔ ڈاکٹر شوکت نے واٹرکٹ کی حمایت کی جبکہ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے و اٹر کٹ کو فراڈ قرار دیا۔ پھر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے’’واٹر کٹ فراڈ‘‘ کے نام سے کالم لکھا تو میں نے آغا وقار کو پرویز ہود بھائی کے سامنے بٹھا دیا اور پوچھا کہ بتائیے آغا وقار کا فراڈ کیسے پکڑیں اور اسے کیا سزادیں؟
ڈاکٹر عطاء الرحمان آرگینک کیمسٹری اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی فزکس کی بات کریں تو بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن جب ڈاکٹر عطاء الرحمان کی طرف سے قائد اعظمؒ کی مبینہ ڈائری میں سے صدارتی نظام کی حمایت ڈھونڈنے کی کوشش ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے۔ پچھلے سال ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے’’ایک انگریزی اخبار ‘‘ میں داعش پر ایک کالم لکھا اور داعش کے نظریے کو علامہ اقبالؒ کے نظریات سے مماثل قرار دینے کے لئے اقبالؒ کے ایک لیکچر کا غلط حوالہ بھی دے دیا۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی غلطی کی نشاندہی کے لئے ایک اردو اخبار میں کالم لکھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے غلطی تسلیم نہیں کی۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ جس معاشرے میں سائنس دان ہمیں تاریخ پڑھائیں، سیاستدان اینکر بن جائیں اور اینکر سیاستدان بن جائیں وہاں ڈاکٹر شاہد مسعود ہی پیدا ہوگا، ڈیوڈ فراسٹ یا لیری کنگ پیدا نہیں ہوگا۔ پاکستان کی صحافت پہلے ہی لہولہان تھی اب’’گٹر جرنلزم‘‘ کے طعنے بھی سنے گی، جو معاشرہ خود گٹر بن جائے اس میں عمران علی جیسے گندے لوگ پیدا ہوتے ہیں لہٰذا گٹر سوسائٹی ہی’’گٹر جرنلزم‘‘ پیدا کرتی ہے، ہم سب ایک دوسرے کو گندا قرار دینے کی بجائے اپنا اپنا گند صاف کرلیں تو بدبو کافی کم ہوجائے گی۔