تازہ ترین

جس کھیت سے دھقان کو۔۔۔۔.تبدیلی

تحریر: پروفیسر رحمت کریم بیگ۔چترال

صوبہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے ساڑھے چار سال کے دوران کئی محکموں میں بنیادی تبدیلی کے دعوے ہو رہے ہیں اور اثبات کو بڑ ے فخر کے ساتھ دہرائی جارہی ہے کہ تبدیلی آگئی ہے اس تبدیلی کے لئے کی جانے والی اقدامات کی بڑی تشہیر ہوتی ہے مگر ان اقدامات سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکی۔ محکمۂ تعلیم میں کئی تجربات کئے گئے اور ان کے نتایئج کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں مگر ہمیں کوئی مثبت نتیجہ دکھائی نہیں دے رہا اگر سکولوں میں کل کا غیر حاضر ٹیچر آج حاضر ہے تو اس کے کام کا نتیجہ بھی وہی ہے جو دس سال پہلے تھا بلکہ بہت سے سکولوں میں سرپلس یعنی زائد از ضرورت تعداد میں سٹاف موجود ہے اور جو ٹیچر پہلے چار کلاسیں پڑھاتا تھا وہ آج دو کلاسیں پڑھا تاہے اور باقی وقت میں سیاست اور مطالبات کی فہرست کی چھان پٹک۔۔ ہاں جو نئی پالیسی اآپنائی جا نے والی ہے جس میں سیلیکشن کے بعد نئے اساتذہ کا نو ماہ کی تربیت کا انتظام کیا جانے والا ہے ایسا قدم قابل ستائش ہے، اور تبدیلی کی طرف قدم کہلا سکتا ہے۔

رہی بات پولیس کے نظام میں تبدیلی کا۔ ایس ایچ او پہلے بھی کسی غریب کی شکایت پر ایف آئی ار نہیں کاٹتا تھا اور آج بھی وہی حال ہے وہ تو اپنی دنیا کا بادشاہ ہے، پولیس کے بارے میں جو شکایات پہلے تھیں اب بھی ہیں ہماری پولیس آج فرشتہ نہیں بنی۔ اور نہ کوئی تبدیلی نظر آتی ہے کہ وزیر اعلی صاحب کے کہنے سے اس کی سوچ میں یکدم تبدیلی انا بعید از قیاس ہے وہ اتنی آسانی سے بدل جانے والی چیز بھی نہیں یہ ساٹھ ستر سالوں کی تربیت یافتہ چیز بہت سخت جان ہے اتنی تھوڑی کان مروڑنے سے اس کو راہ راست پر نہیں لایا جاسکتا اس کی بنیادی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے اور سوچ کی تبدیلی ہی اصل تبدیلی ہے ان کی وردی کی تبدیلی سے کچھ نہیں بدلا جب تک آپ اس کے سوچ کو تبدیل نہیں کریں گے اور یہ کام ابھی باقی ہے، محکمہ صحت کا بھی یہی حال ہے بلکہ کئی صورتوں میں پہلے سے ابتر ہے۔ اب حکومتی دعوؤں کے برعکس اصل تبدیلی کیسے لائی جائے۔ہاں اصل تبدیلی کے لئے آپ کو بلکہ ہم سب کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی ، خان صاحب بنی گالہ میں رہ کر صلح مشورہ کے ساتھ ساتھ کسی دن باہر نکل کر پنڈی کے کسی بازار میں ریڑھی والے کے پاس جاکر ان کا حال احوال پوچھیں بندہء مزدور کے اوقات ان سے براہ راست معلوم کریں ، کسی ایک سرکاری سکول میں جاکر اچانک سکول کے ٹیچرز کے ساتھ بات چیت کرکے ان کے مسائل دریافت کریں طالب علموں سے ان کے مسائل پوچھیں ان کے ساتھ گراونڈ میں جاکر دس منٹ کرکٹ کھیلیں، کسی کارخانے کے مزدوروں سے ان کے مسائل پر بات کریں اس طرح کی عوامی کنٹیکٹ سوچ کی تبدیلی کا نام ہے اپنے انداز بدل دیں اور غریبوں کے ساتھ روابط قائم کرنا بھی سوچ کی تبدیلی کا ایک بنیادی حصہ ہے تبدلی صرف بالائی حکام کے احکامات جاری کرنے سے وجود میں نہیں آتی اوپر کے حکم سے ایک خراب چیز یکدم اچھی نہیں بن سکتی اس کے لئے صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑے گا، سب سے پہلے تمام ملازمین کو تبدیلی کے آئیڈیل کی روشنی میں بھر پورنئی تربیت کے مرحلے سے گذارا جائے ان کی زہنی برین واشنگ کی جائے کہ ان کے زہن کے تمام خانوں میں برے اور اچھے کے تمام عوامل اور عواقب کو ڈالا جائے اور پھر ان سے حلفیہ قسم لیکر کام میں لگایا جائے اور اشاریوں سے اس کے نتائج کی مانیٹرینگ کی جائے۔ رشوت خور کو حکم دیکر اس قبیح عمل سے روکا جا سکتا ہے مگر یہ وقتی عمل ہے پائیدار نہیں اور نئے بھرتی کئے جانے والے ملازمیں کو بھی بھر پور تربیت کے عمل سے گذار کر کام میں لگایا جائے اور تربیت کاروں کو بھی چن کر لیا جائے کہ یہ لوگ بھی اسی نظام میں رہ کر نکل چکے ہیں ۔۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button