تازہ ترین

جمعے کے خطبے سے اسلام آباد کی ناکہ بندی تک کا سفر‘

 

دھرنا ختم کرانے کا عدالتی حکم، مظاہرین پھر انکاری

’بھائی جان موبائل توڑ دیں گے ویڈیو نہ بنائیں‘

فیض آباد دھرنا: ’مظاہرین کو راستہ چھوڑنا ہوگا‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد سے بریلوی طبقے کے قدامت پسندوں نے زیادہ متحرک سیاسی کردار اپنایا ہے۔ لیکن پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ اور بریلوی دیوبندی اختلاف سال 2012 کے بعد سے دیکھا جا رہا ہے۔ خادم حسین رضوی کو سنی تحریک کی بھی اس احتجاج میں حمایت حاصل ہے۔تحریک کے ایک ترجمان اعجاز اشرفی نے بتایا کہ خادم حسین رضوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سے ہے۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی ہیں اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے بھی اسلام آباد کے احتجاج میں شریک ہیں۔ وہ ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے۔ وہ سہارے کے بغیر نہیں چل پھر سکتے ہیں۔ ان پر مختلف نوعیت کے کئی مقدمات بھی پولیس نے درج ہیں۔ اعجاز اشرفی نے بتایا کہ ان مقدمات کی تعداد کتنی ہے انہیں یاد نہیں۔ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں متنازع توہین رسالت کے قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے ہیں۔ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انہوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا ہے۔ دھرنے میں بھی وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا چوکیدار کہہ کر بلاتے ہیں۔خادم حسین رضوی کے لیے پولیس سے جھڑپ اور گرفتاری کوئی نئی بات نہیں۔جنوری 2016 میں بھی توہین مذہب کے قانون کے حق میں انہوں نے لاہور میں ایک ریلی نکالی تھی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ انہیں آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کا آگاہ رکھنا ہوتا ہے۔خادم حسین رضوی کو اپنی سرگرمیوں کے لیے وسائل کہاں سے ملتے ہیں یہ واضح نہیں لیکن اسلام آباد دھرنے کے دوران انہوں نے اعلان کیا کہ نامعلوم افراد لاکھوں روپے ان کو دے کر جا رہے ہیں۔ان سے متعلق انٹرنیٹ پر ایک مضمون کے اختتام پر آسٹریلیا سے ایک شخص ان کا پتہ اور بنک اکاؤنٹ مانگ رہا ہے تاکہ انہیں رقم بھیج سکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اندرون و بیرون ملک دونوں جانب سے انہیں فنڈز ملتے ہیں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button