
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے چار سالہ حکومت کے آخری مہینوں میں اپر چترال کو ضلع کا درجہ دے کر ایک دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا ہے ۔ گذشتہ دنوں اس حوالے سے وزیر اعلی خیبر پختونخوا پر ویز خٹک اور قائد تحریک انصاف عمران خان نے چترال کا دو روزہ دورہ کیا ۔ اور ایک بڑے جلسۂ عام میں سب ڈ دویژن مستوج کو اپر چترال اور بونی کو اُس کا ہیڈ کوارٹر قرار دینے کا اعلان کیا ۔ اور اس کی نوٹیفیکیشن چند دنوں کے اندر کرنے کی یقین دھانی کی ۔ جو کہ نہایت خوش آیند ہے ۔ یہ اعلان انتظامی طور پر چترال کو درپیش مشکلات سے نکالنے کیلئے ایک بہت بڑا فیصلہ ہے ۔ جس کی کئی عشروں سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی ۔ لیکن کسی بھی حکومت نے اس کیلئے سنجیدہ قدم اُٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ بڑھتی ہوئی آبادی ، حکومتی عدم توجہ کے نتیجے میں خستہ حال انفراسٹرکچر اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایک طرف لوئر چترال پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ۔ تو دوسری طرف دور دراز علاقوں کے لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے سینکڑوں کلومیٹر سفر کرنا پڑتا تھا ۔ بروغل ، یارخون ، تریچ ، کھوت ، لاسپور ، ریچ وغیرہ علاقوں کے لوگوں کو چترال پہنچنے کیلئے وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر رقم خرچ کرنے پڑتے تھے ۔ جو کہ غریب لوگوں کی بس سے باہر تھی ۔ چترال کے بہت سارے علاقے ایسے ہیں ۔ جہاں قیام پاکستان سے اب تک کوئی انتظامی آفیسر لوگوں کی مشکلات سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے دورہ نہیں کیا ۔ جن میں زیادہ تر اپر چترال کے علاقے شامل ہیں ۔ اسی لئے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے ۔ کہ ایک طرف نئے ضلع کے ان لوگوں کو طویل سفر سے نجات مل جائے گی ۔ اور دوسری طرف ضلع کا ہیڈ کوارٹر بونی نزدیک ہونے کی وجہ سے اُن کے اخراجات میں بہت کمی آئے گی ۔ اور وقت بھی بچ جائے گا ۔ لیکن ان تمام توقعات کے باوجود نئے ضلع کے اعلان سے اپر چترال کے لوگوں میں کوئی خوشی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ جبکہ توقع یہ کی جارہی تھی ۔ کہ نئے ضلع کے ہیڈ کوارٹر بونی میں خوشی کے اظہار کیلئے تقریبات منعقد کئے جائیں گے ، مٹھائیاں تقسیم ہوں گی ۔ اور شادیانے بجائے جائیں گے ۔ کم آز کم روایتی کھیل پولوکا انعقاد تو ہر صورت کیا جائے گا ۔ مگر خلاف توقع اس قسم کی کوئی تقریب اور خوشی کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا ۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے ، کہ نئے ضلع کے اعلان کو تحریک انصاف کی طرف سے ایک سیاسی انتخابی اعلان قرار دیا جارہا ہے ۔ اور جواز یہ پیش کی جارہی ہے ۔ کہ نئے ضلع کیلئے چترال کے سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ اس کیلئے ہوم ورک نہیں کی گئی ۔ اور اس کیلئے ابتدائی طور پر وزیر اعلی کی طرف سے کسی فنڈ کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ اور نہ نئے ضلع میں سرکاری اداروں کی تعمیر اور آفیسران کی تعیناتی کے حوالے سے عوام کو مطمئن کیا گیا ۔ جبکہ دوسری طرف موجودہ حکومت کا دورانیہ ختم ہونے میں چند مہینے رہ گئے ہیں ۔ آیندہ بجٹ پاس کرنے کا وقت موجودہ کومت کو ملتا بھی ہے کہ نہیں ۔ ان خدشات کی بنا پر ضلع اپر چترال کے لوگوں میں گومگو اور تذبذب و اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ اس لئے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر لوگوں کے خد شات درست ہیں ۔ تو پاکستان تحریک انصاف چترال جو سیاسی کریڈٹ لینے اور الیکشن 2018جیتنے کیلئے یہ سب کچھ کر رہا ہے ۔ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی ؟۔ اس سلسلے چترال کے سیاسی سیانے لوگوں کا کہنا ہے ۔ کہ پاکستان تحریک انصاف کیلئے نیا ضلع ایک بڑے آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر صوبائی حکومت اور مقامی تحریک انصاف کی قیادت نے دلچسپی دیکھائی ۔ نئے ضلع کو سٹبلشٹ کرنے کیلئے کردار ادا کیا ۔ تو آنے والے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ ملے گی ۔ بصورت دیگر اپر اور لوئر چترال دونوں میں پی ٹی آئی اپنی موجودہ ساکھ برقرار نہیں رکھ سکتی ۔ اپر چترال کے لوگوں کو یہ خدشات بھی ہیں ، کہ فی الحال نو مولود ضلع کے پاس ریونیو پیدا کرنے کے وسائل نہیں ہیں ۔ اور جہان وسائل موجود ہیں اُن سے استفادہ حاصل کرنے کی حکومتی سطح پر کوشش نہیں کی گئی ۔ گو کہ اپر چترال میں بڑی مقدار میں آبی ذخائر موجود ہیں ۔ لیکن ان آبی ذخائر سے بجلی پیدا کرکے اُن کی آمدنی حاصل کرنے کیلئے طویل وقت اور فنڈ درکار ہیں ۔ اس لئے ایسی آمدنی کیلئے مزید کئی عرصے تک انتظار کی صعوبتیں نئے ضلع کے عوام کو برداشت کرنی پڑیں گی ۔ اور سوختنی لکڑی و عمارتی لکڑی جن کی تمام ضروریات لوئر چترال پوری کرتی ہے ۔اپر چترال کو ان کے حصول میں مشکلات پیش آئیں گی ۔ اسی طرح ایسے ملازمین جو لوئر چترال میں اپنی ملازمتوں کی وجہ سے قیام پذیر ہونے کے باعث شہری سہولیات حاصل کر رہے ہیں ۔ اپر چترال منتقل ہونے کی صورت میں ان سہولیات سے محروم رہیں گے ۔ یہی وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اپر چترال ضلع کے اعلان پر دل سے خوشی کا اظہار نہیں کر پارہے ۔ لیکن تحریک انصاف کے کارکناں کو یہ تو قع ہے ۔ کہ تحریک انصاف کے ضلعی رہنما ایم پی اے و پارلیمانی سیکرٹری برائے سیاحت بی بی فوزیہ ، سابق صدر عبداللطیف ، رحمت غازی ، محمد اسرار ، حاجی سلطان ، رضیت باللہ ، اور نو شامل شدہ شہزادہ سکندالملک اور شہزادہ آمان الرحمن کوشش کرکے وزیر اعلی کے اعلان پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہوں گے ۔ اور نئے ضلع کی تمام ضروریات پوری کی جائیں گی ۔ اور الیکشن 2018کیلئے پاکستان تحریک انصاف کا راستہ ہموار کیا جائے گا ۔