مضامین

"” قصہ چترال کا دو ضلع ہونے کا "”

تحریر ؛۔ محمد کوثر ایڈوکیٹ

کہتے ہیں کہ ” کہیں تھا کہ نہ تھا ،ہوگا بھی یا نہیں بھی ہوگا،ہوسکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا ایک ریاست ہوا کرتا تھا جو کہ بعد میں دشت کے بعد دشت، صحراء وبیابان چلتے ہوئے ،ڈھلوان پہ ڈھلواں نشیب کے بعد فراز کے ترقی کرکے ایک ضلع بن گیا اس ضلع کے باشندے بڑے خوش وخرم زندگی گذار رہے تھے کہ اچانک ایک ” چومور ڈیکی” روندوھا” کرتے ہوئے آ پہنچا اور کافی ” دُھول” اڑانے کے بعد اس ضلع کو دو کرنے کا سوچ رہا ہے۔اس پر رعایا دوسرے متوقع نومولود بھائ کے نام کے لیے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں کہ نیے ضلع کا نام بھی ایسا ہو کہ بطور قشقاری ہمارا شناخت برقرار رہے۔جبکہ بعض "جہاندیدے” ختنے ” کا سوچ رہے ہیں البتہ اس پر چند دلائل سوشل میڈیا میں عام ہیں جو سامنے آئے یعنی کہ لفظ "چترالی ” ہماری شناخت ہے۔( بصد احترام میں ذاتی طور پر چترالی سے زیادہ قشقاری نام سے اُنس رکھتا ہوں) یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے نئے ضلع کانام اپرچترال کہلانے سے ملک کے دیگر حصوں میں ھم اپنی شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں۔انکا خیال ہے کہ دونوں کو اپر چترال اور لوئر چترال کا نام دیا جائے جبکہ ماضی قریب یعنی 1956 میں موجودہ سب ڈویژن مستوج و ضلع مستوج کے نام سے علحیدہ ضلع رہا ہے۔یہ سوچ نوجوانوں میں پیدا ہوچکا ہے کہ ہماری شناخت ہی ہماری کامیابی ہے۔یہ ایک مثبت سوچ ضرور ہے مگرحتمی نہیں کہہ سکتے البتہ وزنی ضرور ہے ۔اگر ہم تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو مستوج 1860 تک خاندان کٹھور ہی کی شاخ خاندان خوشوقت کے زیرنگیں رہا ہے جس کا براہ راست جغرافیائی کنٹرول کشمیر کے مہاراجہ کے پاس تھا اور زیریں چترال یعنی کھونگور دیرو بوخت سے اِس پار خاندان کٹھور کے حدودات شروع ہوتے تھے۔گو کہ زیریں چترال بھی مہاراجہ کشمیر کا باجگزار تھا مگر1860 کے اواخر میں مہتر امان الملک پہلی دفعہ مہاراجہ کو آنکھیں دیکھانا شروع کیا اور ریاست چترال کی حدودات شمال مشرق میں فتح کرتے ہوئے موجودہ گلگت کے ضلع غذر تا اشکھمون تک وسعت دی جبکہ مغرب کی جانب والئ بدخشان محمود شاہ کو شکست دیکر موجودہ نورستان صوبے کو اپنا باجگزار بنایا اور شمال مغرب کی جانب امیر افغانستان امیرعبدالرحمن کے افواج کو روندتے ہوئے موجودہ افغان علاؤہ کنڑ کے اسمار،جلالہ و چغانسرائے پر قبضہ جمالیا۔یاد رہے کہا جاتا ہے کہ اس مہم میں آسمار کی خوب صورت دوشیزہ بھی امان الملک کے ہاتھ آئی تھی واللہ اعلم۔۔ تیسری جانب شمال مشرق میں موجودہ کالام کے علاقے پر قابض ہوئے۔ امان الملک کے وفات کے بعد ان کے نااھل ورثاء تاج وتخت کے نشے میں ایک دوسرے کو ہر محاذ میں ٹپکانے کے زعم میں اس حد تک گر گئے کہ نہ ان کی اپنی حمیت باقی رہی اور نہ چترال کے عوام کے غیرت وناموس کو بچا پائے یوں پہلی دفعہ انگریز چترال پر اپنا قدم جما بیٹھا اور ڈیورنڈ لائن کے تحت اسمار جلالہ اور چقانسرائے واپس افغانستان کو دئے جبکہ شندور کے اس پار علاقے کو گلگت کا حصہ بنا ڈالا اور چترال کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے زیریں چترال میں کٹھ پتلیوں یعنی نوعمر مہتر زادہ شجاع ملک جبکہ مستوج کو چترال سے علحیدہ کرکے پہلی دفعہ گورنری نظام رائج کرکے امان الملک کے بھائی مھتر زادہ خان بھادر خان کو گورنر مستوج مقرر کیا اس وقت بھی کھونگور دیرو بوخت لائیں آف کنٹرول قرار پایا۔ 1912 کے اواخر میں زیریں چترال کے کٹھ پتلی مہتر کے خدمات کو تاج برطانیہ تسلیم کئے اور اس کی وفاداری کو دیکھتے ہوئے مہتر کی درخواست پر دوبارہ مستوج کو چترال کا حصہ بنایا اور مہتر زادہ غلام دستگیر کو گورنر مستوج مقرر کیا اور کچھ عرصے بعد مستوج پہ اپنے بیٹے مہترزادہ ناصر الملک کو براجمان کیا اور ہر موجودہ سب تحصیلوں میں شجاع الملک نے انگریز کے دیکھا دیکھی خودساختہ گورنر کے عہدے متعارف کراکے اپنے اولاد کو ان علاقوں پر قبضہ دلانے میں تیزی سے کوششیں شروع کردیں۔کہا جاتا ہے کہ کٹھ پتلی مہتر کو انگریزوں نے صرف اس حد تک اختیارات سونپے تھے کہ مہترشپ کی لاج رہے یعنی اپنے رعایا پہ ظلم ڈھانے اور لاوارث زمینوں پر قبضہ کرنے کے علاؤہ کچھ نہ تھا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کہا جاتا ہے کہ مہتر اتنا مجبور محض تھا کہ لکڑی کے لیے پرمٹ کی درخواست پولیٹیکل ایجنٹ سے کرتا تھا۔پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد چترال دوبارہ دو ضلع بنا یعنی ضلع مستوج اور ضلع چترال مگر انتظامی حدود وہی سابقہ ہی رہے۔کہا جاتا ہے کہ 1957 میں انڈیا نے چترال پر کشمیر کی باجگذاری کے بنیاد پر دعویداری کیا تو ریکارڈز سے پتہ چلا کہ 1860 کے بعد کشمیر کو چترال کے حکمرانوں نے ایک چونی بھی نہیں دئے ہیں یوں وہ دعویٰ باطل ہوا واللہ اعلم۔1970 میں کٹھ پتلی مہترشپ ختم کیا جاکر باقاعدہ چترال کو صوبہ سرحد کا ضلع بنایا گیا اور یوں ضلع مستوج کو ایک بار پھر تحصیل مستوج یا سب ڈویژن مستوج کا درجہ دیا گیا۔اب اگر واقعتاً چترال کو دو ضلعوں میں بحال کیا جارہا ہے تو ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ نئے ضلع کا نام ضلع اپر چترال جبکہ لوئر چترال رکھا جائے۔ یار لوگ پتہ نہیں کن بنیادوں پہ اس تجویز کی حمایت یا مخالفت کرینگے مگر میرے دلیل برعکس ہیں۔ہمیں یقین رکھنا چاھئے کہ اگر ہم چترال کے نام پہ متحد رہے تو شندور کا تنازعہ نہیں اٹھنے والا جونہی چترال کا نام ھٹایا گیا تو گلگت بلتستان کے پاس ٹھوس دعویٰ ہے کہ صرف شندور ہی نہیں بلکہ سارا مستوج گلگت بلتستان یا کشمیر کے علاقے ہیں۔ممکن ہے یار دوست اس پر میرے ساتھ اختلاف کریں مگر گردش ایام کا کچھ بھی بھروسہ نہیں اس لیے ہمیں دو ضلع صرف اپر اور لوئر چترال کے نام پر چاھئے اور اسی پر ہمیں متحد رہنا ہوگا
یہ گذارشات اس امید پر کی جارہی ہیں کہ شاید ہمارے تجاویز صوبے کے حکومت کو سمجھانے کے لیے کسی نہ کسی کے نوٹس میں ضرور آئیں گے۔۔۔جبکہ دوسری جانب اہلیان کوہ میداں میں کود پڑے ہیں کہ علاقہ کوہ قدیم الایام کی کالاش باؤنڈری ہی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس ” کنٹرول لائیں ” پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔یہ الگ بات ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے اگرنئےضلع بن جاتا ہے تو شناختی کارڈ میں قومیت کے خانے میں چترالی پاکستانی کا اضافہ کیاجائے مگر ہم "دوئی نُما ݮھمور” والا معاملہ کرنے پہ تلے ہوئے ہیں ۔پہلے ضلع تو ہو لینے دیں ۔حالانکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ابھی کچھ بھی واضح نہیں کیونکہ تحصیل دروش کی مثال سامنے ہے جبکہ تیسری جانب نئے ضلع کے نام پہ سوشل میڈیا کے پیالے میں طوفان برپا ہوچکا ہے۔ ھماری دعا ہے کہ جو بھی ہو اچھا ہو اور عوامِ چترال کے لئے خیروبرکت کا باعث ہو جبکہ آخری اطلاع کے مطابق خان صاحب کا دورہ اگلے 20 نومبر تک ملتوی ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم ہماری دعا ہے اللہ ہر دم چترال پر رحم فرمائے

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button