Uncategorizedتازہ ترینمضامین

دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔اساتذہ کا گل دستہ ایبٹ آباد میں ” ۔۔۔محمد جاوید حیات ۔

۔نوجوان قوم کی آنکھوں کا تارہ اور استاذ معمار قوم ۔۔۔یہ دو حقیقتیں ہیں۔۔۔ مجاز بھی ہیں اس لیے کہ اگر یہ دو طبقہ اپنا معیار کھو دیں تو ان سے کچھ اچھے کی توقع فضول ہے ۔استاذ کے ہاتھوں قوم کی تربیت ہوتی ہے نونہالان قوم ان کے لگاۓ ہوۓ پودے ہیں یا تو یہ تناور درخت بنتے ہیں یا سوکھ کر نخلستان انسانیت کو مزید بنجر کر دیتے ہیں ۔۔دنیا میں ان کی تربیت کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے اس کے لیے تربیت کے نۓ نۓ طریقے متعارف کیے جاتے ہیں اور ان پر عمل کیا جاتا ہے ۔بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے معاشرے ، گھر اور والدین کے علاوہ سکول جو ہے وہ بہت اہمیت رکھتا ہے یہی اکیڈیمی ہےجہاں یا تو عقیق کٹ کٹ کر ہیرا بنتے ہیں یا ٹوٹ ٹوٹ کر خاک میں مل جاتے ہیں ۔اساتذہ کی خاص کر پراٸمری اساتذہ کی مسلسل تربیت( continous professional development CPD) نام سے ایک کورس کا آغاز ہوچکا ہے یہ دو ہزار سترا سے

محمد جاوید حیات

۔

میں ہے ۔گوrرنمنٹ کے تربیتی ادارے Rpdc ان ٹریننگز پہ کام کر رہے ہیں ۔اس سلسلے میں مورخہ پانچ ستمر دو ہزار چوبیس (05/09/2024 ) کوپورے صوبے سے ماسٹر ٹینرز کا ایک گل دستہ RPDC ایبٹ آباد میں جمع کیاگیا ہے ۔PPD کے ماہرین اس ٹرینگ کا انتظام کر رہے ہیں۔اساتذہ کو تربیت مہیا کر رہے ۔پورے صوبے سے اساتذہ کے ہیروں کو یہاں پر بلایا گیا ہے جو ایم فل یا پی ایچ ڈی سکالر ہیں یا تو اپنے پیشے کے تجرب کار ماہریں ہیں ۔ان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جن سے توقع کی مد میں اس قوم کا صرف روشن مستقبل ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر عید محمد صاحب اس کے نگران ہیں ۔یہ مختلف گروپوں میں تقسیم کیے گیے ہیں ان میں سے گروپ 3 میں چترال اپر لوٸر ،درہ أدم خیل ،شامل ہیں۔چترال اپر اور لوٸر سے اساتذہ کا جو گل دستہ شامل کیا گیا ہے ان سب کی بڑی( رچ پروفاٸل) ہے سب یا تو اپنے فیلڈ کے ماہریں ہیں یا ایم فل پی ایچ ڈی سکالر ہیں ۔اپر چترال سے اے ایس ڈی ای او الحاج اور عنایت ،نوید اختر ،روحی خان ،عذرا ،لوٸر سے ہیڈ ماسٹر ندیم ،نوید ،ایس ایس احسان ،عبید الرحمن، سہیلہ رانی ،اصفیا طارق اور ان سب چراغوں میں ایک بے چراغ جگنو بھی شامل ہے ۔چار ستمبر کی صبح جب اپر چترال سے مسلسل ستاٸس گھنٹے سفر کرکے پہنچا تو اساتذہ، پھر ان کی ہلچل، پھر منتظمیں کی مستعدی دیکھ کر تھکن کوسوں دور ہوگٸ ۔ہمارے گروپ میں طفیل عباس سر اور میم میمونہ کی ذمہ داری تھی ۔تربیت کی قندیل ان کے ہاتھ میں تھی ۔ہم بیٹھ سے گئے بس غیر رسمی سی ابتداء ہوٸ ۔ندیم چترالی کی آواز میں قران عظیم الشان کی تلاوت تھی پھر طفیل صاحب کا دبنگ انداز ۔۔۔کٸ سال ٹریننگ کی جھنجھنٹ نے ان کو بڑا تجربہ کار بنادیا ہے ۔پھر میم کا تعارف ہوا ۔کرشماتی شخصیت میں ایک استاذ کی ساری خوبصورتیاں جمع ہیں ۔ ساتھیوں کے ساتھ اکثر ٹریننگ کے تجربے کی سوعات محفوظ تھیں سب نے اپنا تعارف کرایا ۔ سب تعارف سن کر کسی بہت پرانے چترالی لوک شاعر کا شعر یاد آیا ۔۔۔ڈاق راہو چھتیے دوردانا تو اسمان ۔۔۔۔۔کھیشے قلاہوران روغونیکہ تہ کشمان ۔۔۔۔۔ترجمہ ۔۔۔۔بندہ راہ کی دھول ہے اے میرے ہیرو! تو أکاش کی بلندیوں پہ ہے۔۔لونگ کی کاشت کر زمین بڑی زرخیز ہے یعنی موتیاں بکھیر کہ تیری ذات سے وابستہ ہیں ۔۔اساتذہ کے اس گل دستے میں قندیلیں ہی قندیلیں تھیں ۔پھر سی پی ڈی ، ٹریننگ ،استاذ ، کلاس روم ،بچہ ان سب پہ جب تبصرہ ہونے لگے تو سینیر استاذ کو بہت کچھ یاد آگئے ۔ ان کی یادوں کی سکرین میں وہ اساتذہ بھی آگئے جو باہر بیٹھے ہیں اندر کلاسوں میں ان کی کلاس لگی ہے قیامت کا شور ہے مربی کو کوٸی پرواہ نہیں ۔ان کی یادوں کے کینوس میں وہ منظر بھی چھپے تھے کہ استاذ ہاتھ میں ڈنڈا لیے خاموش کھڑا ہے بچے سہمے ہوۓ دب کے بیثھے ہیں ۔استاذ کو امتحان کی ڈیوٹی ،الیکش مردم شماری کی ڈیوٹی ،پھر ٹورنامنٹس ،مذہبی اجتماعات اور چھٹیاں، فوتگی ،جنازہ ،سوشل میڈیا ،ہاتھ میں سمارٹ فون خواہ استاذ کلاس میں ہی کیوں نہ بیٹھا ہو ۔۔پھر ایک ہلکی کی سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پہ نمودار ہوٸ ۔۔کلاس روم ہے استاذ دنیا و ما فیہا سے بے خبر پڑھا رہا ہے ۔۔ یہ لو پھٹے جوتوں کے ساتھ چاند چہرے پہ افسردگی چھاٸ ہوٸ لیکن استاذ گلشن انسانیت کے اس پھول کو سینے سے لگا رہا ہے ۔اس کی اکھیوں میں اتری افسردگی دور کر رہا یے ۔۔یہ لو نتیجہ نکلتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں شکریےکے آنسو ہیں ۔۔یہ کہہ رہا ہے ۔۔میرے شاگرد پاس ہوگۓ ۔۔۔میرا نتیجہ اچھا آیا ۔۔پھر کوئی سی ایس ایس کر رہا ہے اس کا دل دھڑکتا ہے اس کو کلاس روم اور اس کی معلمی یادآرہی ہے ۔پھر بڑے آفیسر کا سامنا کر تا ہے ڈرتا ہے کہ یہ اگر اس کا شاگرد ہے تو اسے دیکھ کر شاگرد کو کیا کیا یاد أگۓ ۔۔ایسا نہ ہو کہ اس نے اسے نہ پڑھایا ہو ۔۔اس نے اس کی کلاس نہ لی ہو ۔۔اس نے اس کا وقت ضاٸع کیا ہو ۔یہ اپنے آپ کو شاگرد کا قیدی سمجھتا ہے ۔بوڑھے استاذ کو کیا کیا یاد آرہے ہیں۔۔امریکہ چین میں بچے لیبارٹیوں میں تجربات کر رہے ہیں۔۔ان کے ہاں لیبارٹی نام کی کوئی چیز نہیں ۔۔اغیار کے ہاں بچوں کی ضروریات ان کی اولین ترجیح ہے یہاں بچوں کے پاس کتابیں نہیں ہیں ۔۔ان کا استاذ محنتی اور پیشہ ور ہے یہاں استاذ کو نہ اپنی محنت کا احساس ہے نہ پیشے کی قدر ۔۔۔پھر بوڑھا استاذ سی پی ڈی کی کلاس میں اپنے آپ کو پاتا ہے ۔اساتذہ بیٹھے ہیں ان کو محنت کرنے کی نصیحت کرتا ہے ۔اللہ کا واسطہ دیتا ہے مجبور ہو کر تنخواہ کا واسطہ دیتا ہے ۔اس واسطے پر حاضریں سیخ پا ہوتے ہیں ۔۔۔یک زبان ہو کر کہتے ہیں۔۔۔ اپنی مراعات یافتہ طبقہ اشرافیہ سے پوچھو وہ کتنی محنت کر رہے ہیں ۔استاذ کو اس قوم نے دیا ہی کیا ہے ۔معاشرے کا ٹھکرایا ہوا مظلوم طبقہ ۔۔۔ یہ سن کر استاذ کو ایک شعر یاد آرہا ہے ۔۔۔قبر ٹکرا کے میری کر دیا زندہ مجھ کو ۔۔۔۔تری ٹھوکر میں یہ اعجاز کہاں سے آیا ۔۔۔۔۔استاذ کہتا ہے ۔۔جو اشرافیہ دفتروں میں فرعون ہے وہ کبھی تمہاری کلاس میں بیٹھا بچہ تھا۔ذرا یادوں کو واپس لاٶ تم نے ایمانداری اور شرافت کا کتنا سبق ان کو پڑھایا تھا ۔سی پی ڈی کی کلاس میں بیٹھے سب کے سر جھک جاتے ہیں ۔۔ میمونہ میم کی آواز أتی ہے ۔۔۔بیٹھک میں چاۓ کا وقفہ ہے ۔۔ ہم باہر نکلتے ہیں ۔۔لان میں کھڑے غیر رسمی گفتگو کر ریے ہیں ۔۔اصفیا جو انگلش لٹریچر کے ایس ایس ہیں ثریننگ پہ نٸ آئی ہیں ۔۔۔کہتی ہیں سر! اگر استاذ کے سینے کے اندر کا استاذ زندہ ہوتا ہے تو سب کچھ ممکن ہے ۔۔انقلاب ،اصلاح ،ترقی ،مضبوطی، معیار ،کردار بلکہ قوم کی پوری زندگی استاذ کے ہاتھ میں ہے ۔۔بوڑھے استاذ نے کہا بیٹا ! تو نے زندگی کو شروع ہی کب کیا ہے یہی ایک ادھ سال کی سروس ہے۔۔۔بیٹا ! زندگی گزارو مت زندگی سے لڑو ۔۔زندہ اور بہادر زندگی کو گزارا نہیں کرتے زندگی سے لڑتےہیں اور جیت جاتے ہیں ۔۔ڈاکٹر عید محمد کی پیشانی پہ بھی روشنی اس قوم کا مستقبل ہے ۔۔اس تربیت سے نکلے ہوۓ یہ تربیت کنندگان اس تربیت کے فانوس کو لے کے اگے بڑھیں گے ۔۔ان شا اللہ اس قوم کی مضبوطی کی چابیاں صرف استاذ کے ہاتھ میں ہیں ۔۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button