تازہ ترینمضامین

دھڑکنوں کی زبان..میرا پاکستان..محمد جاوید حیات

اپنے پاکستان کے ایک کونے سے شہر پشاور کی طرف رخت سفر باندھا کوسٹر کی دوسری سیٹ پہ آرام سے بیٹھا ۔کوسٹر کا ڈرائیور ادھیڑ عمر کا تجربہ کار آدمی تھا ۔کہا سفر کی دعا پڑھو ۔۔ہم نے پڑھ لیا ۔۔رات سات بچے روانہ ہوۓ ۔۔پکڈنڈی جیسی سڑک پہ ڈرائیور استاد بڑے اختیاط سے گاڑی چلارہا تھا دو گھنٹے کا سفر طے ہوا اب سفر میرکھنی سے اوپر کی طرف جاری تھا مشہور لواری درے کی طرف مسلسل چڑھاٸی تھی ۔یہ مشہور درہ پیدل کے زمانے سے چترالیوں کے لیے عذاب سے کم نہ تھا سردیوں میں یہ مکمل بند ہوتا کٸ جانیں یہاں پہ برفانی تودوں کی نذر ہوگٸیں تھی۔ پرانہ قصہ ہے ایک جمہوری لیڈر کو کیا سوجھی کہ یکدم دیر اور چترال کے درمیاں ٹنل بنانے کاعزم کرلیا ایک ایم این اے ہر اسمبلی اجلاس میں ٹنل کی بات کرتا اس کا نام "مسٹر ٹنل” رکھا گیا یہ خواب تھا ۔۔ٹنل دو کلو میٹر بنا تھا کہ جمہوری لیڈر کا اقتدار ختم ہوااس کو راستے سے ہٹایا گیا مطلق العنان آگیا ۔۔ٹنل بند کر دیا گیا ہم مقدس جنگ لڑ رہے تھے کئی سال گزرے جمہوریت کا سورج پھر طلوع ہوا۔۔ٹنل ایک نعرہ بن گیا ۔۔۔پھر سے ایک فوجی ڈیکٹیٹر نے ٹنل بنانے کا اعلان کیا ۔۔پیسے نکلے ۔۔ٹھیکے لگے ۔۔کام شروع ہوا ۔۔خواب اب تبدیل ہوچکا تھا ۔۔جب ٹنل بنے گا اس کے اندر ریل کی سروس ہوگی ۔۔ریل بجلی سے چلے گی۔۔مسافت ختم ہوجاۓ گی ۔اس سے آگے دورویہ مصفا سڑک ہوگی ۔یہ بے مثال ہوگی عربوں کی لاگت سے بنے گی ۔۔دروش شہر تک کشادہ سڑک ہوگی کام شروع ہوگیا ۔۔زورو شور سے جاری رہا ۔درمیاں میں پھر جمہوری حکومت آئی ۔کام رک گیا ۔۔مختص شدہ فنڈ کسی اور شہر کو خوبصورت بنانے کےلیے شفٹ کیے گئے ۔خواب ادھورا ہی رہا ۔ہھر جموری حکومت پھر تبدیل ہوگئی ۔نٸ جمہوری حکومت کوترس آیا عربوں کا فنڈ ریلیز ہوا ۔۔دو ٹنل بنے ۔۔ریل سسٹم ، دورویا کشادہ سڑک ،خواب ہی رہ گئے ۔ادھیڑ عمرکا ڈرائیور استاد نے یکدم گاڑی کی رفتار سست کردی ۔گاڑی دھڑام سے ایک کھڈ میں گری ۔مسافروں کے سر ایک دوسرے اور سیٹ کے کناروں سے ٹکراۓ ۔پھر گاڑی ہچکولے کھانے لگی ۔یہ سڑک اس خواب کا حصہ تھا۔یہ کھڈ ،یہ راک یہ سب اس خواب کا حصہ تھے ۔یہ خواب نگر کی طرف جاتی اس سڑک کا حصہ تھا جس کے لیے پیسے نکلے تھے ۔جس کے لیے منصوبہ بنا تھا ۔جس کے لیے ٹھیکے لگے تھے ۔کوٸی "صادق” نام کا انجنیر ہوگا ۔۔کوٸی ” امین”نام کا اکس سی این ہوگا ۔۔دونوں ناموں کو ملا کر ” صادق امین” نام کا ٹھیکہ دار ہوگا ۔۔یہ گروپ اگر شروع میں ہوتا تو شاید یہ ٹنل خواب ہی رہتا لیکن شروع میں چترال کے ایک کوہکن نے یہ کام ممکن بنایا تھا ۔۔پیسے ختم ہو چکے ہوں گے ۔۔اگر یہ منصوبہ کسی اور ملک میں ہوتا تو انجینیراس کو اپنے لیے فخر کہتا ٹھیکہ دار اس کو اپنی منزل قرار دیتا ۔لیکن کہیں سے آواز آئی کہ یہ ٹھیکے دار کے گھر کا راستہ تھوڑی ہے کہ ذوق و شوق سے اس پہ کام ہوتا ۔۔انجینیر کے گاٶ ں کا راستہ تھوڑی ہے کہ اس کو ہموار کیا جاتا ۔۔یہ ملک جاپان تھوڑی ہےکہ وہ ٹھیکہ دار اور انجینیر قابل مواخذہ ہوتے ان کو ناقص کام کی سزا دی جاتی ۔ہچکولے کھانے والے ہچکولے کھاٸیں گے ان کے گھر کے راستے پر کہکشان اسی طرح رہے گا ۔ادھیڑ عمر استاد سٹیرنگ مسلسل گما رہا تھا پیچھے مسافروں میں سے کسی نے آواز دی استاد کے ساتھ بیٹھے ہوۓ بندے ان کے ساتھ گپ شپ لگاٸیں کہیں ان کو نیند نہ آجاۓ ۔اسی دوران استاد ایک اور کھڈ میں گر گیا ۔۔زیر بھری ہنسی اس کے چہرے پہ پھیلی ۔۔خود کلامی کے انداز میں کہا ۔۔۔شور محشر میں نیند کس طرح ۔۔۔میری اس بیچاری کوسٹر کا ہر پرزہ چیختا ہے ۔جذبہ تعمیر وطن کس طرح جاگ جاۓ ۔۔یا تو قوم کی ایسی تربیت کی جاۓ کہ قوم خدمت اور تعمیر وطن کے شوق میں اپنے آپ کو بھول جاۓ ۔۔یا ڈنڈا ہو ۔۔۔کہ قوم کو نقصان پہنچانے والے کا سر قلم کردیا جاۓ تب کہیں بات بنے ۔۔ورنہ تو ہچکولے ہی کھانا پڑے گا ۔۔۔خیر ڈرائیور استاد کو نیند نہیں آۓ گی

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button