تازہ ترینمضامین

داد بیداد۔۔۔عالمی اور علاقائی تنظیمیں۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

اسلا م اباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سر براہ اجلاس بخیرو خوبی اختتام پذیر ہوا، سربراہ اجلاس کااعلامیہ علاقائی امن، ترقی،تجارت اور باہمی تعاون کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت کاآئینہ دار اور آنے والے سالوں میں مزید بہتری کانقیب بن کر آیا ہے سر براہ کانفرنس میں 8ملکوں کے سر براہوں نے شرکت کی 4ایٹمی طاقتوں کے وفود آئے اورسلامتی کونسل کے دورکن ممالک سے وفود آئے، مہمانوں نے حکومت پاکستان کی طرف سے بہترین میزبانی کوسرا ہا، شنگھائی چین کا صنعتی، تجارتی اور ساحلی شہر ہے 26اپریل 1996کو اس شہر میں چین کی میزبانی میں ایشیاء کے 9ملکوں کی علاقائی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے نام سے ایشیائی مما لک کی ایک تنظیم قائم کی گئی اس کا نام شہر کے نام پر رکھا گیا اس نام میں گاف لکھا جاتا ہے بولا نہیں جاتا، چینی اس کا نام ”شن ہائی“ بولتے ہیں، تنظیم میں عوامی جمہوریہ چین، روس بھا رت، پا کستان، ایران، تا جکستان، کر غیزستان، کزاخستان، ازبکستان، بیلا روس اور دو مبصر ممالک شامل ہیں، اسلام اباد کانفرنس اس تنظیم کی تئیسویں کانفرنس تھی، اگلی کانفرنس تک تنظیم کی سربراہی پاکستان کے پاس رہے گی، کانفرنس کی کامیاب میزبانی سے پاکستان کو بے شمار فوائد حا صل ہو ئے ہیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان سفارتی تنہائی سے باہر آیا ہے، دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان پر سے امریکی اثرو نفوذ کا منفی ٹھپہ دور ہو گیا ہے کیونکہ امریکہ سفارتی محاذ پر شنگھائی تعاون تنظیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور اس کو چینی بلاک کا ہراول دستہ قرار دیتا ہے تنظیم کے اندر امریکی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری اس نے بھارت کو سونپ دی ہے، امریکی تھنک ٹینک کا یہ اندازہ تھا کہ شنگھا ئی تعاون تنظیم آگے جا کر نیٹو (NATO) عالمی بینک (WB) اور آئی ایم ایف (IMF) کی عالمی اہمیت کو چیلنج کرے گی ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک مغربی مالیا تی اور دفاعی تنظیموں کے محتاج نہیں رہینگے، ایس سی او کی بنیا د رکھتے وقت اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ دفاعی اور مالیاتی معاملات میں مغر بی ممالک کی اجا رہ داری کو ختم کریگی، ڈالر کی جگہ ایشیائی کرنسی کو تبادلہ جات کی کرنسی بنائے گی اور رکن مما لک کی مدد کے لئے سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھو لیگی گذشتہ 28سالوں میں ان امور کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تنظیم کے اندر امریکی اور مغربی مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے مو جود ہیں وطن عزیز پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ بات اہمیت کا حا مل ہے کہ ایس سی او نے اسلا م اباد کانفرنس میں ممبر ملکوں کی باہمی تجارت کو فروغ دینے پر زور دیا،اگر باہمی تجارت میں اضافہ ہواتو یہ بات ممبر ملکوں کے لئے باعث تقویت ہو گی تاہم مقطع میں سخن گسترانہ نکتہ یوں درآتا ہے کہ باہمی تجارت کے اعتبار سے پاکستان صارف ملک بن چکا ہے، ہماری پیداوری صلاحیت متاثر ہوچکی ہے ماہرین معا شیات اور عالمی بینک کے اندازوں کی رو سے پاکستان نے 1960، 1980اور 2000کے تین عشروں میں معاشی ترقی،صنعتی پیداوار اور تجارتی توازن کے جو بلند اہداف حاصل کئے، 1970، 1990اور 2011کے عشروں کا زوال ان کامیابیوں پر بھاری رہا، 2020کا نصف عشرہ بھی زوال ہی کی طرف گامزن ہے، اب ہمارے پاس نہ چاول ہے نہ کپاس ہے نہ سرجیکل آلات ہیں نہ سپورٹس کا سامان ہے نہ ٹیکسٹائیل کی پیداوار ہے نہ قالینوں کا پھیلتا ہوا کاروبار ہے، باہمی تجار ت میں ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ہمیں ایک بار پھر 1960، 1980اور 2000کے تین عشروں کا ماڈل سامنے رکھنا ہو گا پالیسیوں کا تسلسل بر قرار رکھنا ہو گا اور صارف کی جگہ پیداواری شراکت دار بن کر با ہمی تجارت سے فائدہ اٹھانا ہوگا

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button