Uncategorizedتازہ ترینمضامین

افضل سخن … آغاخان اسکول اویرک, مٹی کے کمروں سے خوبصورت عمارت تک کا سفر..تحریر محمدافضل

اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ چترال میں بچیوں کیلئے تعلیم کے مواقع میسر نہیں تھے- اکثر والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے مال مویشیوں کی رکھوالی کو زیادہ اہمیت دیا کرتے, بچیوں کی تعلیم تو دور کی بات- میرے گاؤں میں جب گورنمنٹ پرائمری سکول قائم کیا جارہا تھا تو مضافات میں کئی گاؤں موجود ہونے کے باوجود طلباء کی مطلوبہ تعداد کو پورا کرنا سب سے بڑا چیلنچ تھا, اس بنا بچیوں کو بھی برائے نام رجسٹر میں اندراج کیا گیا تاکہ مطلوبہ تعداد پوری اور اسکول کا قیام ممکن ہو سکے- جو داخل ہوئی تھیں وہ ایک ایک کرکے اسکول چھوڑنے لگیں, پانچویں جماعت تک دو تین اور مڈل میں صرف ایک طالبہ ہمارے اسکول میں رہ گئی-

آغاخان ایجوکیشن سروسز کے نزدیک بچیوں کی تعلیم اولین ترجیح ہونے کی وجہ سے کراچی اور گلگت بلتستان کے بعد 80s کے اوائل میں چترال کے اندر بھی لڑکیوں کیلئے اسکول قائم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیز علی نجم کی رہنمائی میں کمیونٹی کے عمائدین کیساتھ ڈائلاگ ہوئی, نتیجتاً چپاتی, بریپ اور اویرک لٹکوہ میں متعلقہ کمیونٹی کے ذریعے کچے کلاس رومز تعمیر کرکے تین اسکولوں کے قیام کیساتھ بچیوں کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا-
کہتے ہیں کہ جب علم کی روشنی پھیلنا شروع ہوجائے تو ترقی کے راستے کھلنے لگتے ہیں- اسے پہلے چترال کے دور دراز علاقوں میں قائم آغاخان ہیلتھ سروس کے چند سینٹرز کیلئے کراچی سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی خدمات حاصل کی جاتی, جہاں زچہ و بچہ کی نگہداشت کیساتھ عام عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں-
پھر آغاخان ایجوکیشن سروسز کے انہی اسکولوں سے خواتین کی افرادی قوت نکلنا شروع ہوئیں جو آگے چل کر مزید تعلیم و ہنر حاصل کرکے شعبہ صحت, تعلیم اور شعبہ ہائے زندگی میں شامل ہوکر نہ صرف چترال بلکہ کراچی اسلام آباد سمیت اندرون ملک اور بیران ملک اپنی گرانقدر خدمات پیش کرتے ہوئے اپنی خاندان کی کفالت کرنے کیساتھ دیگر کم آمدنی والے افراد مالی مدد بھی کر رہی ہیں- ان میں سے کچھ سخت محنت کرکے ایم ایس سی, ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کی تعلیم کر چکی اور رہی ہیں- آغاز میں آغاخان ایجوکیشن سروسز کا ہدف بچیوں کو تعلیم تک رسائی فراہم کرنا تھا پھر آہستہ آہستہ رسائی کیساتھ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر تمام توجہ اور کوشش معیاری تعلیم پر مرکوز ہے, اسکولوں کی تعداد اور کلاس روم طلباء کیلئے سہولیات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے-
پچھلے ہفتے مجھے آغاخان ہائی اسکول اویرک جانے کا اتفاق ہوا اور اسکول کے اندر طلباء بالخصوص ابتدائی کلاسز کے بچوں کیلئے سہولیات کی دستیابی دیکھ کر خوشی ہوئی- مجھے وہ وقت یاد آگیا جب مٹی کے کچے کمرے تعمیر کرکے بچیوں کی تعلیم آغاز ہوا تھا اور اسکول کی عمارت, صفائی کا انتظام, خوبصورت اور تدریسی آلات سے لیس کلاس رومز دیکھ کر اور ہشاش بشاش طالب علموں کا اعتماد اور تدریسی عملے کا جذبہ دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی-
الحمداللہ, اگر یہ کہوں تو بیجا نہیں ہوگا کہ حال ہی میں ضلع چترال کا تعلیمی انڈکس کے حوالے سے پورے صوبے کے اندر دوئم آنے میں آغاخان ایجوکیشن سروسز کے تحت قائم کردہ اسکولوں کا بنیادی کردار ہے اور امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں چترال کی تعلیمی مزید بہتر ہوگی انشاء اللہ 👍

 

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button