داد بیداد,,.نتیجہ آگیا …ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
پشاور میں نتیجوں کا سیزن شروع ہوا ہے پشاور بورڈ کے بعد پشاور کے اخبارات میں صوبے کے 8بورڈوں کے نتیجے ایک ایک ہوکر آرہے ہیں مگر یہ صرف میٹرک کے نتیجے ہیں ایک شرمندگی کے بعد مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے میٹرک کانام سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ (SSC) اور بارہویں جماعت کانام ہائیر سیکنڈری سکول سرٹیفیکیٹ (HSSC) رکھ دیا گیا ہے گذشتہ کئی دہائیوں سے ہمارا تعلیمی نظام اپنے امتحانات اور ان کے نتائج کو لیکر ”نازک موڑ“ سے گذررہاہے مگر گذرتا نہیں نازک موڑ پر پھنس گیاہے اور ہم خودفریبی کے عذاب میں عمرقید کی سزاکاٹ رہے ہیں جوحکومت نتیجہ نکال کر دیتی ہے وہی حکومت نتیجہ کو تسلیم نہیں کرتی کسی ڈھنگ کے کالج یاپیشہ ورانہ تعلیم کے بڑے ادارے میں داخلہ کے لئے 99فیصد نتیجہ یعنی 1200میں سے 1188نمبرلیکر جائیں توحکومت کہتی ہے یہ نتیجہ اور یہ سرٹیفیکیٹ قبول نہیں،تم تین مہینے بعد آکرنیاامتحان دیدو ہم دیکھنگے کہ تم کتنے پانی میں ہو، 3ماہ بعد امتحان دیکر پھر 99فیصد نمبر لیتے ہو تو حکومت جاکر عدالت سے حکم لاتی ہے کہ ایک بار پھر امتحان ہوگا اور اس حکم کے آتے آتے تعلیمی سال گذر جاتا ہے 99فیصد نمبر لینے والے کا قیمتی سال ضائع ہوجاتاہے حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، سسٹم کو ہلکا زکام تک نہیں ہوتا، آج جن شہریوں کے بال سفید ہوچکے ہیں وہ اخبارات میں کسی امتحان کا نتیجہ دیکھ کر اپنے طالب علمی کے زمانے کو یاد کرتے ہیں کیا زمانہ تھا بورڈ کا امتحان ہوتاتھا نتیجہ آجاتا تو سب کو اطمینان ہوتا جس کے ضمنی پرچے آجاتے وہ چپکے سے دوسرا پرچہ دے دیتا جس کے اچھے نمبر آتے وہ خراماں، خراماں جاکے کسی ڈھب کے کالج یا پیشہ ورانہ تعلیم کے سال اول میں داخلہ لے لیتا، اس کے سر ٹیفیکیٹ اور مارکس شیٹ کی عزت ہواکرتی تھی 850میں سے 647نمبر کا مطلب ہوتا تھا طالب علم نے اچھے نمبرلے لئے 76فیصد نمبر سے کام چل جاتا تھا بورڈ بھی اس کو مانتا تھا حکومت بھی اس کو تسلیم کرتی تھی 50فیصد نمبر لینے والے ڈاکٹر، انجینئر اور پی ایچ ڈی سکالر ہوتے تھے آگے جانے کارجحان ہواکرتا تھا امتحان پرامتحان اور پرچے پرپرچہ دینے کا کوئی نرالا دستور نہیں تھااللہ ان کی عمر دراز کرے ہمارے زمانہ طالب علمی کے بزرگ استاد بقید حیات ہیں وہ انٹری ٹیسٹ یا مڈکیٹ وغیرہ کا نام سنتے ہیں تو آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اورپوچھتے ہیں اگرحکومت امتحان کے نتائج کوتسلیم نہیں کرتی توامتحان کیوں لیتی ہے؟اپنی ناکامی کا کھل کر اعتراف کرے زمین پرناک رگڑ ے اور امتحان لینے کاکام آغا خان یونیورسٹی،اکسفورڈ یونیور سٹی یا کیمبرج یونیور سٹی بورڈ کے حوالے کرے ملک کے طول و عرض میں ڈیڑھ سوا امتحانی بورڈ ضروری ہیں تو ان کا ہرنتیجہ تسلیم ہونا چاہئیے بفرض محال امتحانی بورڈ کا کوئی بھی نتیجہ قابل قبول نہیں تو رجسٹریشن، امتحانی فارم،امتحانی فیس، امتحان اور نتیجہ سب کچھ ختم کرے،اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ خود کو دھوکا دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر سرٹیفیکیٹ خود حکومت کے لئے، تعلیمی اداروں کے لئے امتحانی بورڈوں کے لئے قابل قبول نہیں تو فضول کی یہ سر دردی ختم کرو، ہم اپنے بزرگ استاد کی خد مت میں عرض کر تے ہیں کہ نیا زما نہ آگیا ہے اس دور میں نتیجہ تسلیم نہ کرنا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے 1988سے اب تک 10بار انتخابات ہوئے ہر الیکشن پر اربوں روپے خر چ ہوئے 1988میں 8ارب روپے خر چ ہوئے تھے، اس کانتیجہ ہمارے بڑوں نے تسلیم نہیں کیا، 2024ء میں 29ارب روپے خرچ ہوئے اس کانتیجہ بھی بزرگوں نےتسلیم نہیں کیا،بزرگ استاد کہتے ہیں انتخا بات کو چھوڑئیے وہ تو پتلی تماشاہے کٹھ پتلیوں کا رقص ہے، امتحانات کی بات کیجئے یہ قوم کے مستقبل کا معاملہ ہے، نئی نسل کا مسئلہ ہے، آج قوم کا ہر نونہال اور ہر نوجوان پوچھ رہا ہے تم اگر امتحانی نتیجہ اور سر ٹیفیکیٹ تسلیم نہیں کرتے تو امتحان کیوں لیتے ہو؟ ایسا سر ٹیفیکیٹ کیو ں دے رہے ہو خو د اس کو نہیں مانتے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟