Uncategorizedتازہ ترینمضامین

آہ جان بیٹا!……..شیرولی خان اسیر

ہاں اے فلک پیر جوان تھا ابھی عارف!
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور (غالب)
تم تو اپنی منزل حقیقی کی طرف کوچ کر گئے اور دائمی زندگی کا آغاز کر دیا۔ تمہاری شرافت، محبت، انکساری، شائستگی اور رحمدلی اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ تم روحانی خوشی پا گئے ہو مگر یہاں اس کالی مٹی کے باسی، اس ظالم دنیا کے قیدی، تیرے پیار کی مورتیاں جیسے ماں باپ، تیری پیار و محبت والی رفیقہ حیات، تیرے جگر گوشے ، تیرے ہم شیر بہن بھائی ، عزیز و اقارب، دوست احباب کے لیے دنیا اندھیروں میں ڈوب گئی ہے۔ ان کا درد و غم الفاظ کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ کوئی بھی تسلی ان کا اندوہناک غم کم نہیں کر سکتی سوائے اللہ پاک کی مدد کے جس نے یہ آزمائش تیرے پیاروں پر ڈالی ہے۔ اہل چترال تجھے کھو کر بہت حوصلہ شکن اور دکھی ہیں کیونکہ تم چترال کے ذہین ترین اور قابل ترین بچوں میں سے ایک تھے۔ تم نے کم عمری میں دنیا کے سب سے زیادہ مؤقر ادارے کے اندر مقام پاکر ہمارا سر فخر سے اونچا کر دیا تھا۔ تمہارے ساتھ بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں کہ تم اپنی صلاحیتوں اور اپنے بین الاقوامی اثر رسوخ کے ذریعے اس پسماندہ علاقے اور اپنے مادر وطن کی ترقی و تعمیر میں بڑا کردار ادا کروگے۔ آپ کو بہت کچھ کرنا تھا اپنے عزیز و اقارب اور اہل وطن کے لیے! ابھی آپ کے جانے کی عمر نہیں تھی بیٹا!
ہاں بیٹا، احسان الحق جان! یوں اچانک تیرا سفر آخرت آپ کے تمام رشتوں، دوستوں اور عزیزوں کے لیے ناقابل برداشت غم کا باعث بنا ہے۔ خاص کرکے آپ کے والد اور والدہ کے لیے یہ وقت مشکل ترین وقت ہے۔ ان پر اللہ پاک کی بہت بڑی آزمائش اتری ہے۔ شاید اللہ پاک نے شمسیار خان لال اور موردیرو کائے کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ یہ بہت بڑا امتحان ہے جس کا تصور ہی دل کو ہلا دیتا ہے ۔ جب آپ کی شہادت کی خبر کانوں میں پڑی تو میرا دماغ ماؤف سا لگا تھا۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا اپنے کانوں پر۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔ زندگی میں کبھی کبھی ایسے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جب اپنے مصیبت زدہ عزیزوں کے سامنے جانے اور ان سے تعزیت کرنے کو انسان اپنے لیے دنیا کا مشکل ترین کام سمجھتا ہے اور دل سے چاہتا ہے کہ خدا اس ناقابل برداشت ذہنی اور قلبی بوجھ سے کسی طرح نجات دلائے کیونکہ ایسے حالات میں تسلی اور ہمدردی کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ گویا دل و دماغ گنگ ہو جاتے ہیں۔
میں سلام بھیجتا ہوں تیرے عظیم ماں باپ کو کہ انہوں نے اللہ پاک کے اس بہت بڑے امتحان کو رضائے الٰہی کہتے ہوئے نہ صرف خود صبرِ جمیل کا مظاہرہ کیا اور کر رہے ہیں بلکہ ہم سب کو بھی صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔۔ اس بات سے آپ کی روح یقیناً خوش ہوگی کہ اللہ پاک نے تجھے کتنے صابر و شاکر والدین کا لخت جگر ہونے کا شرف بخشا ہے۔ ہمارے سامنے بہت بڑی مثال ا گئ ہے کہ اللہ کے مقرب بندے ایسے ہوتے ہیں۔ صبر و برداشت کے پہاڑ ہوتے ہیں اور اپنے چھوٹوں اور آئیندہ نسل کے لیے عمدہ ترین نمونے ہوتے ہیں۔ اللہ پاک انہیں مزید صبر کی طاقت عطا فرمائے، آمین!
ہماری اپنے رب سے دعا ہے کہ اللہ کریم تیری روح کو دائمی سکون کی نعمت سے نوازے اور تیرے پیاروں کو اپنے صابر بندوں میں شامل کرے، آمین یارب العالمین!
وبشرصابرین الذین اذا اصابتہم مصیبة قالو انا للہ واناالیہ راجعون ۔
Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button