سیاستکاروبارمضامین

علمائے حق زندہ باد

دھڑکنوں کی زبان

محمد جاوید حیات

صلح حدیبیہ لکھی جارہی ہے ۔۔ایک طرف فخر موجوداتﷺ اپنے پروانوں کی مغیت میں ہیں ۔۔ دوسری طرف کفار ہیں ۔۔کائنات کا مالک دیکھ رہا ہے ۔۔شرائط لکھی جا رہی ہیں ۔۔بظاہر ہر شرط کفار کی مانی جارہی ہے ۔۔محسن انسانیت تسلیم کر رہے ہیں ۔۔ایک شرط سراسر کفار کے حق میں ہے ۔۔حضرت عمرؓ برداشت نہیں کر سکتے ہیں ۔۔غیرت جوش میں آتی ہے ۔۔محسن انسانیت ﷺ کو اپنے اس پروانے کے ایمانی تقاضے کا احساس ہے مگر مصلحت وقت کا تقاضا ہے کہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا جائے ۔۔۔بعد کے حالات ثابت کرتے ہیں اور فاروق اعظمؓ کو ساری زندگی اپنی اس جوش پہ ندامت رہی ۔۔ہم جس دین کے پیروکار ہیں اس دین کے پیغمبر ﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر فلاح انسانیت کے لئے بھیجا گیا ہے ۔۔اس بے مثال رحمت کی گواہی طائف کی پہاڑیاں دے رہی ہیں ۔۔مکہ کا شہر جب رحمت عالم نے اپنے جانی دشمنوں سے فرمایا ۔۔لا تثریب علیکم الیوم۔۔تلوار ہاتھ میں لئے سر پہ کھڑے کافر سے فرمایا ۔۔مجھے تم سے میرا رب بچائے گا ۔۔حنین کا میدان ۔۔۔احد کا میدان۔۔جنگ خندق کا آخری دن جب سردار دوجہان ﷺ اپنے ساتھیوں سمیت ہر طرف سے کفار کے نرغے میں آئے ۔۔یہ سب اور بے شمار واقعات اسلام کے امن اور رحمت کی دلیلیں اورمثالیں ہیں ۔۔قرآن نے مصلحت اور تدبر کو مسلمان کی شان کہا ۔۔فخر انسانیت ﷺ کے اخلاق کو قرآن عظیم الشان نے ’’عظیم ‘‘ کہا ۔۔عظیم ا خلاق والے عظیم نبی کے پیروکار بھی اسی کی سنت کی پیروی کرتے ہیں ۔۔اور جب بھی کیا ہے اس سے دین کو فائدہ ہی پہنچا ہے ۔۔علمائے حق نے ہر دور میں اپنے تدبر سے دین کو فتنوں سے بچایا ہے ۔۔کتنے فتنے اُٹھے جن کے سامنے علما ڈٹ گئے ۔۔اور آج کا دور اور زیادہ فتنوں کا دور ہے اس میں علما ء کا کردار اور اہم ہے ۔۔کفار ،گمراہوں اور لغینوں کا کام یہ ہے کہ وہ دین حق کے خلاف ہر ممکن سازش کریں ۔۔اس کو نقصان پہچانے کی کوشش کریں لیکن اس دین کے پیروکاروں کا امتحان ہے کہ اس دین کو بچانے کے لئے جہان جان دینے کی ضرورت ہو دے دیں ۔جہان مال کی ،اولاد کی ،جائیداد کی قربانی ہو دے دیں یہی ایمان کا تقاضا ہے اور الحمد اللہ ایسا ہوتا رہا ہے ۔۔کبھی بھی اہل ایمان دین کے معاملے میں کسی مصلحت کاشکار نہیں رہے ہیں ۔۔چترال میں حالیہ جو واقعہ رونما ہوا ۔۔کہ ایک ملغون نے خواہ وہ پاگل ہے یا تندرست ہے اس نے اپنے آپ کو نغوذوبا اللہ پیغمبر کہا ۔۔یہ تو ثابت ہے کہ ان جملوں کے ساتھ ہی وہ ملغون ہوا ۔۔کوئی کمزور اہل ایمان بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا ۔چہ جائیکہ چترال جو اہل ایمانوں کا گڑھ ہے میں اس گستاخی کو برداشت کیا جائے ۔۔مگر مصلحت وقت کا تقاضا تھا کہ فساد سے گریز کیا جاتا ۔۔اُمت کو فتنوں سے بچایا جاتا ۔۔جب وقت اور مجرم تمہارے قبضے میں ہے تو اس کے لئے تدبر ضروری ہے اگر مجرم تم پر مسلط ہے تو اس وقت جان دینا ایمان کا تقاضا ہے ۔۔ہمارا ملک ہے ۔۔اس میںآئین ہے۔۔ قانون ہے عدالتیں ہیں ۔اس لئے ہمارا کام اس ملغون کو پکڑ کر عدالت کے حوالا کرنا تھا ۔۔ہاں اگر یہ علمائے حق ہم سے کہہ دیں کہ جان دے دو تو کون مسلمان ہے جو اپنے نبی ؐکے ناموس پر اپنی جان نہ دے۔۔ یہ تو اس کی خوش بختی ہے ۔۔مگر ہمیں سمجھنا چاہئے کہ سلامتی کے دین کے تقاضے کیا ہیں ۔۔ہمیں حال اور امر کااحساس ہونا چاہئے ۔۔ہمیں فساد کے انجام سے بچنا چاہیئے ۔۔دشمن اس تاک میں ہوتا ہے کہ فساد پھیلائی جائے ۔۔تاریخ گواہ ہے کہ فسادی ہی دین کو نقصان پہنچا چکے ہیں ۔۔تاریخ کی افسوس ناک خونی جنگیں مسلمانوں کے درمیان صرف ان فسادیوں اور شرارتوں کی وجہ سے لڑی گئیں ۔۔جو اس عظیم امت کو کمزور کرنے کی مضموم کو ششیں تھیں ۔۔چترال امن کا گہوارہ ہے ۔۔دنیا میں جنت ہے ۔۔اس جنت کو فسادیوں سے بچانا ہمارا فرض ہے ۔۔اس میں ہمارے علمائے حق کا کردار ہمارے رہنما کا ہے ۔۔ہم ان کے تابعدار ہیں ۔۔وہ ہم سے زیادہ دین کے تقاضوں سے باخبر ہیں ۔۔دین کے معاملوں میں وہ ہم سے زیادہ جذباتی ہیں ۔۔اگر وہ قربانی کا کہہ دیں تو ناموس رسالت پر ہماری جانیں کروڑوں دفعہ قربان ہیں ۔۔ہم اور چاہتے کیا ہیں ۔۔اگر ہماری زندگی دین کے لئے قربان ہو تو اس سے زیادہ اور خوش نصیبی کیا ہو گی ۔۔موجودہ افسوسناک واقعے میں علمائے کرام کا کردار مثبت رہا ہے ۔۔ہم مولانا خلیق الزمان خطیب شاہی مسجد کے تدبر کو سراہتے ہیں ۔۔اور پھر اس کے اس جملے پہ میری آنکھوں سے آنسو زار و قطار جاری ہوئے کہ جب اسے بتایا گیا کہ آپ کی گاڑی کو آگ لگائی گئی آپ نے فورا کہا ۔۔میں اہل ایما نوں کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں ۔۔ناموس رسالت پر میری جان قربان ہے گاڑی کی کیا ہے ؟۔۔۔یہ اٹل ہے کہ سر زمین چترال امن اور اسلام کی سر زمین ہے ۔۔اسلام جس شان و شوکت سے چترال میں ہے دنیا میں کم کم علاقوں میں ہوگا۔۔۔اب کے واقعے نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام کی اصل روح کیا ہے یہ ثابت ہوا کہ اسلام سلامتی کادین ہے ۔۔ مولانا خلیق الزمان نے اسلام کی اصل روح دنیا کے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کر دیا کہ علمائے حق کا کردار کس طرح ہوتا ہے ۔۔۔چترال میں علماء کا کردار ،دینی جماعتوں کاکردار ،تبلیغی جماعتوں کا کردار ،مدار س کا کردار سب اسلام کی پر اُمن حقیقی فضا کو قائم کرنے کے لئے ہیں ۔اللہ تعالی ٰ علمائے حق کا سایہ ہم پرقائم و دائم رکھے ۔۔امن اللہ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے ۔۔سورہ قریش میں مکہ والوں کو یہ احسان یاد دلایا گیا ۔۔۔دین اسلام میں اعتدال اور قانون کی پاسداری کی تعلیم دی گئی ہے ۔۔ایک مہذب اور پرامن شہری ہونا ہر مسلمان کا اخلاقی فرض ہے فخر موجوداتﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات ہمارا اڑوھنا بچھونا ہیں ۔۔چترال کی اس پاک
سرزمین میں اس طرح کے فتنے نہیں اٹھنے چاہیءں ۔۔کسی بد بخت کی ایسی جرائت کس طرح ہو سکتی ہے ۔۔وہ یقیناًفاطر العقل اور پاگل ہے ۔۔یہ ہمارے ایمان کی آزمائش ہے ۔۔ہم نے اس کو قانون کے حوالے کردیا ہے ۔۔ہم کمانڈانٹ چترال سکاؤٹس،چترال پولیس ،پاک آرمی ،انتظامیہ ،عدلیہ ،سیاسی عمائدیں اور سارے سٹیک ہولڈرز کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان پر فخر کرنے کے ساتھ یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ اس مجرم کو قرار واقع سزا دی جائے تاکہ سب کو اس بات پہ فخر ہو کہ وہ ایک اسلامی سر زمین کا مکین ہے ۔۔ہم دین کے معاملے میں کبھی کسی طرح کی مصلحت کو قبول نہیں کر سکتے البتہ امن دین کے تقاضوں کے اندر ہماری پہلی ضرورت ہے ۔۔اگر شاہی مسجد کے مضموم واقعے میں ہم قانون اپنے ہاتھ میں لیتے تو اس کے نتائج اچھے نہ ہوتے ۔۔حقیقت پس منظر میں چلی جاتی ۔۔مولانا اور ہم مسلمان دہشت گرد ہوتے ۔۔ایک معذور ،بے چارہ ،معصوم ،نعوذبلاللہ بے گناہ،مظلوم کاخدا کے گھر میں بے دردی سے قاتل کہلاتے ۔۔اسلام کو دہشت گردی کا مذہب کہہ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ۔۔ہم خون خوار درندے تصور ہوتے ۔۔نام نہاد انسانی حقوق کی دھائی ہوتی ۔۔بے شک ہم یہ سب کچھ بخوشی سہ لیتے لیکن ہمیں بہت برداشت کرنا پڑتا ۔۔ہماری بے سکونیاں بڑہتیں ۔۔ہمارے اسلام کو برُا بھلا کہا جاتا ۔۔ان سب نتائج کو ہمارے علماء ہم سے زیادہ محسوس کرتے ہیں اس لئے ان کا فیصلہ درست ہے اور ہمیں بہ سر چشم منظور ہے اللہ ان کا سایا ہم پہ قائم رکھے ۔۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button