وادی چترال اپنی روایات کے سنگ ابھی تک وجود رکھتی ہے ۔یہاں خاندانی رسوم ورواج ابھی تک زندہ ہیں یہی رسوم یہاں کی زندہ ثقافت کی شان ہیں ان رسومات میں شادی بیاہ کی رسومات بہت نمایان ہیں ۔آج تک کسی خاندان میں بیٹے کے لیے لڑکی پسند کرنے کا رواج ہے جدید تعلیم یافتہ اور آگاہی کے دور میں بھی بچے بچیاں اپنے ماں باپ کے حکموں کے تابع ہیں اور ان کی پسند کو اولیں ترجیح دیتے ہیں ۔یہی روایات چترالی قوم کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہیں ۔صرف ایک دن پہلے میرے قریبی رشتے میں ایک منگنی کی رسم ادا ہوٸی جو مجھے قلم اٹھانے پہ مجبور کیا ۔۔بیٹی ایک اعلی تعلیم یافتہ اور چترال کی پہلی سی ایس ایس پولیس أفیسر ایس ایس پی شازیہ تھیں اور بیٹا آصف کالج میں لکچرر ہیں ۔دونوں کالج فیلو تھے ان کے پاس ایک دوسرے کا پہلے سے تعارف تھا وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے ان کو دونوں کے خاندانوں کے بارے میں بھی پتہ تھا ۔اس کے باوجود ان کے والدین کی مرضی اور پسند ان کی اولین ترجیح تھی ۔دونوں کے لیے بڑے بڑے خاندانوں میں رشتے کی کمی نہ تھی ۔شاید ایس ایس پی شازیہ کے لیے ملک کے بڑے بڑے متمول خاندانوں سے رشتے آتے۔۔بڑے بڑے اوفر ہوتے بیٹا بھی آسانی سے کوٸی رشتہ نبھاتا لیکن انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ اپنے گاٶں خواہ اس کی پسماندگی مسلم ہے اس میں کسی پرتعیش ایٸڈیل زندگی کا تصور نہیں پھر بھی اگر والدین کی رضا ہے تو یہاں ہی رشتہ نبھاٸی جاۓ۔کسی نے جب شازیہ کا یہ جملہ مجھے بتایا تو مجھے ان کے والد پہ رشک آیا کہ "اگر میرے والد کی رضا ہو تو مجھے ایک چرواہا قبول ہے اور اگر میرے ابو کی مرضی نہ ہو تو دنیا کا کوٸی بھی شہزادہ مجھے قبول نہیں "یہ جملہ ایک تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ چترالی بیٹی کاوہ تعارف ہے جو شاید دنیا کی کسی بیٹی کا تعارف ہو ۔۔اسلام نے بیٹی کی مرضی کو اہمیت دی ہے لیکن حضرت عایشہ رض کی یہ سنگل روایت ” لا نکاخ الا ولی ” کسی مہذب و محترم بیٹی کے لیے کافی ہے جو نکاح والدین کی مرضی کا ہو دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اس میں برکت ہوتی ہے ۔شازیہ کا یہ جملہ چترال کی ساری بیٹیوں کے لیے پیغام ہے کہ بیٹی ایسی ہوتی ہے ۔ان دو بے مثال بچوں کی رسم منگنی کل انجام پاٸی ۔یہ چترال اپر کے دو تحصیلوں کے درمیاں بھی ایک مضبوط رشتہ تھا شازیہ تحصیل مستوج اور آصف تحصیل تورکھو کی نماٸندگی کررہا تھا ۔آصف کے ابو امیر ولی خان معمار قوم ہیں اور شازیہ کے ابو قوم کے سرفروش رہے ہیں ۔۔امیر ولی خان نے اپنے علاقے کے معززیں کے ساتھ جب شازیہ کے گھر جنالی کوچ گئے تو وہاں پر بھی انہی چاند تاروں سے محفل سجی تھی مجھے شمولیت کا شرف حاصل نہیں تھا لیکن اس خوبصورت محفل کی روداد سننے کو دل تڑپ رہا تھا شکر ہے امیر ولی خان نے وہ تصویریں بھیج دی ۔اچھا لگا ۔۔رنگ و بو کی دنیا بھی کیا انوکھا منظر دیکھاتی ہے اگر خوشی کے لمحے ہوں وہ بھی ناقابل فراموش ہوتے ہیں اور اگر کہیں افسردگی ہو تو وہ بھی جان کڑکاتی ہے ۔بیٹے کی طرف سے علاقے کی معروف سماجی اور سیاسی شخصیت عبد القیوم بیگ صاحب نے مختصر طور پر اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور میزبانوں کا شکریہ آدا کیا۔پھر میزبانوں کی طرف سے بھی ایسے شکریے کے الفاظ ادا ہوۓ ۔۔یہ رسمی سی باتیں تھیں ان سے ہٹ کے بھی کہا جاتا کہ یہ رشتہ عام سا رشتہ نہیں ہے یہ قوم کے ان چاند تاروں کا جوڑ ہے جو آگے جا کر اس قوم کی پہچان بنیں گے ۔یہ معزز و محترم اور تابعدار بچوں کی وہ کہانی ہے جو دھراٸی جاۓ گی ۔۔یہ رسم نہیں ایک reference ہے کہ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ والدین کی خوشی کے آگے ان کی ڈگریاں ،ان کے عہدے اور ان کا سٹیٹس کوٸی اہمیت نہیں رکھتا ۔رسول مہربان ص نے ایک بیٹے سے فرمایا ۔۔جاٶ تو اور تمہاری حیثیت اسی آدمی کا ہے جو باپ کہلاتا ہے ۔یہ رسم ایک رسم تھی لیکن رسم کی اہمیت درجہ رکھتی ہے ۔۔معاشرے کی شیرازہ بندی کے لیے خاندان کی مضبوطی بہت ضروری ہے ابن خلدون نے اس خاندانی عصبیت کو بہت اہمیت دی ہے یہ تب ممکن ہے جب اولاد اور والدین میں درجات کا یہ رشتہ بے مثال ہو ۔۔میری تحسین کے لاٸق شازیہ بھی ہیں اورآصف بھی ان کی والدین کی تربیت اچھی ہے انہوں نے اچھی اولاد پالا ایسے والدین قوم کے محسن ہوتے ہیں ۔۔۔اللہ ان کے رشتے میں برکت عطا کرے ہم اگر جسمانی طور پر ادھر نہیں تھے تو کیا ہوا ہمارے یہ جذبات ہمیں اڑا کر کب کے ادھر پہنچاۓ تھے ۔۔۔۔
ڈاق راہو چھوتیے دردانا تو آسمان ۔۔۔۔۔۔۔کھیشے قلاہوران روخونیکہ تہ کشمان ۔۔۔۔