یہ تو طے ہے اور مسلمہ حقیقت ہے کہ کتابوں کا سب سے بڑا فائدہ علم ہے پاکستان سے باہر لکھنے والے کو رائلٹی ملتی ہے اور کتابوں کو چھا پنے والے اشاعتی ادارے ما لی فائدہ بھی حا صل کر تے ہیں اس فائدے کو کتب فروشوں، تھو ک اور پر چون سوداگر وں میں بھی تقسیم کر تے ہیں لیکن پاکستان میں اس کا رواج نہیں ہے، خیبر پختونخوا کے دارالحکو مت پشاور کے اندرکتاب کے کاروبار میں جلال اباد، ہرات، قند ہار اور کابل کےبرابر بھی فائدہ نہیں اس لئے یہاں کے بڑے بڑےپبلشروں نے یا توکتابیں چھاپنابند کردیاہے یااپناراستہ بدل کرافغانستان کی بڑھتی اور ابھرتی ہوئی منافع بخش مارکیٹ کا رخ کیا ہواہے ظاہر ہے وہاں اردو، انگریزی، ہند کو، سرائیکی یا کسی اور پاکستانی زبان کی کتاب نہیں بکتی وہاں پشتو اور فارسی کی کتابیں بکتی ہیں اس لئے پبلشروں نے پشتو کی ادبی، تاریخی اور سماجی علوم پر لکھی گئی نئی اور پرانی کتابوں کو چھاپنے کا سلسلہ زور شور سے شروع کیاہے، فارسی میں تفسیر،حدیث، فقہ، منطق اور فنون کی کتابیں اسلامی مدارس کے لئے چھپوا ئی جاتی ہیں بعض قدیم کتب کے پشتو تراجم مارکیٹ میں لائے جاتے ہیں، پشتو ادب میں پٹہ خزانہ سے لیکر کلیات ہمیش خلیل تک پرانی اور نئی کتابوں کی بڑی مانگ ہے اور ندامت کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور پختونخوا سے زیادہ کابل اور ننگر ہار میں ان کتابوں کی مانگ ہے 20فیصد مارکیٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہے تو 80فیصد مارکیٹ امارت اسلامی افغانستان میں ہے پشاور کے اردو بازار محلہ جنگی میں ایک ہفتہ گذارنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ علم دوست ملک کو نساہے اور کتاب دشمنی کس ملک میں زیادہ ہے؟ معروف اور مصروف پبلشر وں کاکہنا ہے کہ ہمارے پڑوس میں جو ممالک ہیں وہاں کے عوام میں علم دوستی کی قدیم روایات بہت پختہ ہیں وہاں کی حکومتوں نے کتابوں کی تجارت کے لئے سازگار فضا قائم کی ہے جون 1985ء میں پا نچویں اہل قلم کانفر نس کی افتتاحی نشست میں صدرضیا ء الحق کے سامنے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے بزرگ شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے ایک واقعہ سنایا جو کانفرنس کی روداد ادبی جا ئزے نامی کتاب میں شائع ہوچکی ہے قاسمی صاحب نے لکھا”ایک بین لاقوامی سیمینار کے دوران پڑوسی ملک کے ادیبوں نے کتابوں کی اشاعت کاذکر کیا تو معلوم ہواکہ وہاں ہر کتاب 20لاکھ کی تعداد میں چھپتی ہے پھر ایک شاعر نے پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کا حال پوچھا تو ہم نے ”دروغ مصلحت انگیز“سے کام لیتے ہوئے کہا کہ 20ہزار کی تعداد میں ہر کتاب چھپتی ہے تو وہ لوگ افسوس کر نے لگے اگر میں سچ بولتے ہوئے ایک ہزار یا 500کہتا تو وہ باقاعدہ ادب کی موت پر فاتحہ پڑھتے اور تعزیت کااظہار کرتے ملک اور قوم کی عزت وناموس کا مسلہ تھا ہم نے جھو ٹ بول کر عزت بچا ئی مگر ہر جگہ جھوٹ نہیں بولا جا سکتا، وطن عزیز میں کتابوں کی صنعت کو پڑوسی مما ک کے برابر لانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا“ قاسمی صاحب کا دکھ آج بھی بجا ہے بلکہ آج کچھ زیا دہ ہی بجا ہے لاہور، کراچی اور اسلام اباد میں شاعر اور ادیب اپنی کتا ب خو د چھپوا تا ہے اس پر اپنی جیب سے خر چ کر تا ہے ہر کتاب 100یا 200کی تعداد میں چھپتی ہے، لاہور میں پروین شا کر، فیض احمد فیض اور منیر نیازی کی کوئی کتاب اگر 850روپے میں آتی ہے تو پڑو سی ملک سے آنے والی وہی کتاب 250روپے کی ملتی ہے گویا وہاں کتاب آشنا معا شرے ہے اور یہاں ڈنڈہ آشنا سماج ہے لاہورکے مال روڈ پر دو چار دکا نوں سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ پڑو سیوں کے ہاں کا غذ سستا بھی ہے دستیاب بھی ہے، کتا بوں کی صنعت ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہے البتہ ہر پبلشر مصنف یا شاعر کو رائلٹی دینے کا پا بند ہے، وہاں انٹیلکچو یل پرا پر ٹی رائٹ یعنی ”تخلیقی ذہا نت کے حق“ کو تسلیم کیا گیا ہے اگر مارکیٹ کا یہی حال رہا تو اگلے چند سالوں میں پشاور کے اشا عتی ادارے صر ف افغا نستان کے لئے کتا بیں شائع کرینگے پبلشروں نے ابھی سے کہنا شروع کیا ہے ”کتا بوں سے کیا فائدہ“ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 20سالوں میں 8بڑے اشا عتی اداروں نے پشاور سے بوریا بستر اٹھا لیا اور 50بڑے بک سٹور بند ہو چکے ہیں گذشتہ سال کی یہ خبر بڑی جا نکا ہ تھی کہ لندن بک ڈپو بھی بند ہوگیا اس ماہ ہم نے پشاور صدر کی لیا قت سٹریٹ سے گذر تے ہوئے دیکھا جہا ں کتابوں کی دکا نیں تھیں وہاں بچوں کے کھلو نے بک رہے ہیں، ہم نے بلور پلا زہ کے تہہ خانے میں سردار جی کی مشہور دکان اور چار مقامات پر مقبول کتب میلوں کی جگہوں پر جاکر دیکھا سب بند ہو چکے ہیں یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکر یہ ہے شاعر کا مصر عہ اس پر صادق آتا ہے ”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکا ن اپنی بڑھا گئے“
Facebook Comments