زندگی کا طویل عرصہ اپنی مٹی سے دور گزار کر 2004میں پہلی بار اپنے آبائی علاقے جانے کا اتفاق ہوا تو لگتا تھا کہ ہم کسی اور دیس کے باسی ،کہیں دور آبسیں ہیں ۔نہ رشتوں کی پہچان نہ زبان سے بلند ۔۔۔۔۔گ
ریجویشن کے امتحانات کے لیے ڈگری کالج چترال کے قریب اپنے بابا کے گھر رہنے کا فیصلہ کیا اور اپنی چار ذہین ترین بہنوں جیسی کزن اور علم کے سمندر اگلوتے بھائی مجتبی کمال سے پہلی بار ملنے کا شرف حاصل ہوا ۔21 سال اپنے آبا و اجداد سے دور رہ کر بھی قوم پرستی میرے خون میں شامل تھی ۔اس لیے رشتوں میں گھلنے ملنے میں چند لمحے بھی نہیں لگے ۔ان دنوں بابا عصمت عیسی خان ریٹائرمنٹ کے بہت قریب تھے ۔وہ بہت ہشاش بشاش طبیعت کے مالک تھے ۔میں ان کے رحلت کے بعد سے ان کی قابلیت اور کامیابیوں پر لکھے بے شمار آرٹیکلز پڑھ چکی ہوں ۔یہاں ان کے کچھ ایسے اوصاف بتانا چاہتی ہوں جو شاید بہت سے لوگ نہ جانتے ہوں ۔بابا کی آواز نہایت گرجدار اور باروب تھی وہ کسی کیس میں بحث کرتے تو عدالتیں اپنا کام روک کر ان کو سنتی تھی ۔اور اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت کچھ زیادہ محسوس ہوتا تھا جب میں گھر میں برابر والے کمرے میں سو رہی ہوتی تھی اور بابا صبح سویرے لینڈ لائن نمبر سے اپنے افیشل ذمہ داریاں ماتحتوں کو سمجھا رہے ہوتے تھے ۔دو تکیے کان کے اوپر رکھ کر بھی سکون نہ ملتا تو ان کے کمرے میں جاکر ان کے ہاتھ سے ریسیور چھین کر ان کو گھر کے صحن میں لے جاکر کہتی تھی کہ وہ دیکھے پوراچترال یہاں سے نظر آتاہے آپ یہاں آ کر بولا کریں اپ کی آواز مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے گی ۔بس خدارا ہماری نیند خراب نہ کیا کریں ۔اور اس پر وہ زوردار گرجدار قہقہہ لگاتے ۔مگر مجال ہے کبھی غصہ کیا ہو ۔بس ایک بار بہت ڈانٹ پڑی تھی جب پشاور میں دوران تعلیم ایک رات ہم کھانا کھانے باہر گئے اور واپسی پر صرف 15 منٹ ٹریفک کی وجہ سے لیٹ ہو گئے ۔چوکیدار بتاتا تھا کہ دن میں کم از کم 20 بار یہ شخص اپنے بچوں کی خیریت کے لیے مجھے کال کرتا ہے ۔اور وارڈن اور اساتذہ کرام کے ساتھ بھی بیسیوں بار رابطہ کرتے تھے ۔وہ تھا ہی ایسا محبت کرنے والا ۔۔۔۔۔
اس شخص کو اپنوں کے علاوہ بھی ہر جاندار مخلوق سے ایک الگ طرزکی محبت تھی ۔آفس سے واپسی پر کوئی معذور فقیر یا مدد کا طلبگار نظر آتا اس کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آتے ۔آج بھی وہ لوگ اس گھر میں فرد کی طرح موجود ہیں ۔اور یتیمی کا درد شاید وہ ہم سے کہیں زیادہ محسوس کر رہے ہوں ۔
مجھے یاد ہے وہ لنگڑا کتا ۔۔۔جسے وہ زخمی حالت میں لے کر آئے تھے اور پالتو کتا بنالیا تھا ۔۔فجر کے بعد گھر کے لان میں پودوں کو پانی دیتا اور ان جانوروں کو کھانا ڈالتا میرا بابا ان پودوں کو اور ان جانوروں کو بھی یاد آتا ہوگا ۔۔
بابا کھانے پینے کے معاملے میں choosy نہ تھے مگر ان کے کھانے پینے کا خیال رکھا جاتا تھا ۔وہ معذور عورت جس کو انہوں نے گھر لا کر گھر کا فرد بنایا ہوا تھا کھانے سے پہلے ہمیشہ پوچھتے کہ اس کو کھانا دیا ہے یا نہیں ؟
وہ انسانیت کے بہت اعلی درجے پر فائز ایک غیر معمولی انسان تھے اپنی کتابوں سے عشق تھا انہیں ۔۔۔اپنے کمرے میں موجود چیزوں کے بارے میں اتنااحساس تھا کہ ایک بار دو چنیوٹی کرسیوں کو میں نے مجتبی کے کمرے میں منتقل کر دیا تھا ۔منتقل ہی تو قابل معافی تھی مگر جو پینٹ میں نے ہاتھ سے کیا تھا وہ ناقابل معافی جرم ثابت ہوا ۔اس کے بعد دو دن تک گھر میں یہاں وہاں چھپ کے بیٹھنا پڑتا تھا ۔اس ڈر سے کہ کہیں آمنا سامنا نہ ہو جائے اور ان کو پھر سے کرسیاں یاد نہ آجائے ۔۔
جو بات میرے لیے سب سے زیادہ قابل حیرت ہی وہ یہ تھی کہ انہوں نے اوپر کے پورشن پر کام کرایا اور اوپر کے پورشن کے لیے جو سیڑھیاں بنائی جانی تھی ان کے درمیان ایک پرانا درخت حائل تھا ۔۔پھر کیا تھا بابا نے طے کیا کہ درخت نہیں کٹے گا ۔۔۔سو آج بھی وہ درخت سیڑھیوں کے بیچ سے گزرتا ہوا پورے آب و تاب سے کھڑا ہے ۔۔میں بابا سے کہتی تھی کہ سیڑھیوں پر اتنا خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟بس اوپر کا پورشن بنا دیتے ہم درخت سے اوپر چڑھ جایا کرتے اور ٹہنیوں سے لٹک کر نیچے آجایا کرتے ۔۔۔اور پھر ان کی وہ بے اختیار ہنسی ۔۔۔۔
لوگ لکھتے ہیں کہ عصمت عیسی خان جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔۔میں کہتی ہوں ان جیسا پیدا ہو ہی نہیں سکتا وہ اپنے آپ میں کمال تھا علم کا سمندر تھا، محبت کا پیکر تھا۔۔۔۔ وہ دوسرا ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔
میری ہشاش بشاش عصمت عیسی خان سے آخری ملاقات اپنے والد کے جنازے پر اپنے گھر میں ہوئی تھی ۔۔۔۔اس سے پہلے ہم پشاور میں جتنی بار ملے وہ اپنے حواس میں نہ تھے ۔۔آئی سی یو پشاور میں ان کو دوسروں کے رحم و کرم پر دیکھا ۔ان کا ہاتھ ہاتھوں میں لے کر ان سے بہت سی باتیں کہیں مگر خدا جانے وہ سن پاتے تھے یا نہیں ۔ان کی آنکھ کے جھلکتے آنسو اور ہاتھوں کی جھٹک زندگی کا احساس دلاتی تھی ۔۔۔۔
کاش وہ اس احساس کے ساتھ ہی زندہ رہ جاتے ۔۔۔۔کاش