
خبر مختصر مگر کڑکا دینے والی تھی خبر کیا تھی برق تھی جو گری اور محبتوں کو بھسم کر گٸ ۔۔پاک نیوی کے ایس ایس جی کمانڈو علیم الرحمن ہیلی کاپٹر سے پیراشوٹ ڈاون جامنپ کرتے ہوۓ پیراشوٹ نہ کھلنے پہ گر کے شہید ہوگۓ یہ جمنپ دس ہزار فٹ بلندی سے تھی علیم الرحمن کی یہ باون (52) جمنپ تھی ۔علیم الرحمن پاک نیوی کے کمانڈو تھے پھر پیاس نہ بجھی تو پاک آرمی کے سپیشل فورس میں آگۓ ملازمت کا یہ چھٹا سال تھا مختصر مدت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔سٸنیر کمانڈو تھا جونٸیرز سے مشق کراتا تھا ۔دلیری شان تھی۔ خدمت جنون تھا۔ شہادت آرزو تھی۔جب چھٹی پہ گھر آتے واپس جاتے ہوۓ ماں سے لپٹ جاتے۔۔۔ کہتے میرا کام مہا کام ہے۔۔۔ ٹریننگ مشکل ہے۔۔۔ کہیں جا کے شہید ہوجاٶں تو رونا مت۔۔۔۔ فخر کرنا ۔۔آپ شہید کی ماں کہلاٸیں گی ۔۔ماں دل پکڑ کے رہ جاتیں ۔باپ ایڈوکیٹ محمد اسماعیل سرحدی دبنگ ٹاٸپ شخصیت ہیں اپنے کھرارا پن اور جرات کیوجہ سے مشہور ہیں ۔الفاظ میں گھنگرج ہوتی ہے غیرت دلاتے ہیں ۔آج لخت جگر کی شہادت کی خبر ملی تو ایک ثانیے کو لرز گۓ پھر سنبھل گۓ ۔آزماٸش کو قبول کیا ۔سر فخر سے بلند کیا ۔علیم الرحمن نمایان بچہ تھا سب ان کے عظیم اخلاق کی شہادت دیتے ہیں ان کی صلاحیتوں کی گواہی دیتے ہیں ۔وہ اس پاک دھرتی کی ناموس پہ قربان ہو گۓ اس سے بڑا مرتبہ ہو ہی نہیں سکتا ان کی والدیں شہید کی والدین کہلاۓ ۔انکی جسد خاکی لایا جا رہا تھا تو ہاٸر سکینڈری سکول واشچ جو ان کی مادر علمی ہے کے طلبا ،پرنسپل ،اساتذہ ،گاٶں کے چند معززیں کے ساتھ سڑک کے دورویا کھڑے ان کا استقبال کر رہے تھے یہ استقبال نہیں عقیدت اور فخر کا اظہار تھا ۔بحیثیت قوم اپنے محافظوں کو پیعام دینا تھا کہ ہمیں آپ پہ فخر ہے ہم آپ کے ہیں آپ ہمارے ۔۔۔اگر آپ جان ہیں تو ہم آپ کے دل ہیں اگر آپ رگ جان ہیں تو ہم ان میں دوڑنےوالے گرم خون ہیں شہید کی جسد خاکی پر پھول نچھاور کیے گۓ ۔ نعرے لگاۓ گۓ ۔۔۔پاک نیوی پاک آرمی چترال سکاٶٹ اور چترال پولیس کے آفیسروں اور جوانوں سے اپنی محبت کا اظہار کیا گیا ۔جسد خاکی گھر پہنچاٸ گٸ ماں کی تڑپ ،بہن کی لرزہ ، بھاٸ کے نالے ، باپ کے بکھرنے کی آواز سناٸ دی۔۔۔ دوست احباب رشتہ داروں اور گاٶں والوں کے چہروں پر افسرگی چھاٸ رہی ۔مغرب کی نماز ہوگٸ ۔ شہید کی نماز جنازہ کھڑی ہوگٸ ایک ہجوم نے نماز ادا کی ۔ یہ اس علاقے کا ساتوان شہید تھا یہ دھرتی شہیدوں کی سرزمین ہے ۔۔1948 ۔۔1965…1971….کارگل ۔۔۔ضرب عضب ۔۔۔رد الفساد ۔۔۔۔سب مہموں میں ان کے شہدا ہیں چترال سے پہلا شہید آفسر کیپٹن اجمل شہید اسی علاقے کے ہیں ان کی جسد خاکی لحد میں اتاری گٸ ۔یہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ تھا ۔۔سلوٹ ماری گٸ ۔۔۔۔سلامی دی گٸ ۔۔۔۔پھول چڑھاۓ گۓ ۔۔۔پاک فوج کے کمانڈانٹ نے اپنا پیعام دیا ۔۔۔۔شیر دل جوان کی تعریف کی۔۔۔۔ اپنے عزم کا اظہار کیا ۔شہید کے باپ اپنے شہید لخت جگر کے لیے اپنے رب کا شکریہ ادا کیا پھر پاک فوج کا۔۔۔۔۔ پھر سب کا ۔۔ملک و قوم سے وفا کی تشریح کی۔۔۔۔ اپنی وفا کا یقین دلایا ۔۔رات کا اندھیرا چھا گیا تھا۔۔۔۔۔ قبرستان میں بلپ روشن تھے ۔۔۔۔میں ہجوم میں کھڑا تھا ۔سوچا کہ اس سمے ایک ماں کے پھول کو مٹی کی لحد میں اتارا گیا۔۔۔۔ ایک بہن کا چاند خاک کے نیچے سو گیا ۔۔۔۔ایک باپ کی امیدوں کا محل مسمار ہو گیا ۔۔۔۔ایک بھاٸ کی آرزو مٹ سی گٸ ۔۔پھر کہیں سے آواز آٸ کہ یہ جوان مرگ زندہ ہے تمہیں شعور نہیں ۔یہ ننگ و ناموس قوم و ملک و ملت و مذہب ہے ۔۔۔ان کی موت پہ رشک کرو ۔۔اتنے میں دیکھا کہ باپ مرقد کے سرہانے چٹان کی طرح کھڑا ہے آنکھوں سے صبر کی قندیلیں روشن ہیں۔۔۔۔ پاک فوج کے جوان کھڑے ہیں ۔۔۔ بندوق اٹھی ہیں۔۔۔۔ گولی چلی ہیں ۔۔۔۔دشمن میلیامیٹ ہو رہا ہے ۔میں نے خود کلامی کی ۔۔۔یہ تو موت نہیں زندگی ہوٸ ۔۔۔۔اتنی خوبصورت زندگی ۔۔۔۔