
عبوری صوبائی حکومت میں چترال جیسے دور افتادہ پسماندہ اور 76 سال سے سڑکوں ،پلوں، گریڈ ھسپتال،جدید یونیورسٹی،میدیکل کالج،انجینیرنگ کالج ،حتا کہ ڈپلومہ کی سند دینے والے سوات کے ٹیکنیکل کالج کے معیار کے ٹیکنیکل کالج سے محروم چترال کے دونوں اضلاع کو عبوری صوبائی کابینہ میں کوئی بھی نمائیندگی نہ دینا چترال کے قانون پسند ،مہذب پرامن کٹر پاکستانی باشندوں کے ساتھ نا انصافی ،ظلم ذیادتی اور چترال کے باشندوں کو کوئی وقعت نہ دینے کے مترادف ھے
آج ھزارہ کے وسعت قلبی رکھنے والے نئیے وزیراعلی کے انتخاب سے کجھ امید سی دل میں ابھر آئی ھے کہ چترال کے باشندوں ھی کی طرح کے رنگ روغن شکل و صورت سماجی اقدار اور مراسم رکھنے والے مثالی پرامن ھزارہ کا وزیراعلی چترال کے دونوں اضلاع سے ایک ایک نمایندہ اپنے عبوری صوبائی کابینہ میں لیکر چترال کے باشندوں کی آرزو ے لاحاصل اور نا امیدی کو دور کریگا
چترال پورے خطے پاکستان اور خاص کر (کے پی کے ) کے لیے انتہائی جغرافیائی اھمیت رکھتا ھے اور اگر آج چترال کے قدیم الایام سے مستعمل تجارتی ٹرک ایبل موجود کچے زمینی بین الاقوامی تجارتی تیار راستوں اور پیدل کے راستوں کو بدخشان اور واخان سے سنٹر ایشاء اور چین تک کے جائیز تجارت کے لیے محفوظ کرکے کھولا جایے تو صرف ایک ماہ میں ھی چترال سے کروڑوں کا زرمبادلہ صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کو حاصل ھوسکتا ھے اور صوبائی حکومت کے مالی مشکلات دور ھوسکتے ہیں
اور پاکستان کے تمام مصنوعات پلاسٹک کے سامان سیمنٹ سریا اور تمام عمارتی سامان گرم کوٹ کپڑے جوتے سنٹرل ایشیاء کے تمام ممالک کے مارکیٹ تک پہنچا کر اربون کی تجارت شروع کی جاسکتی ھے
مگر یہ تجارتی مختصر ترین زمینی راستوں کو جائیز تجارت اور رفت و آمد کو کسی انڈیا دوست زمہ دار سرکاری افسر نے 1998 میں بلاوجہ بند کرکے انڈیا کو اربوں کا فائیدہ پہنچایا ھے اور آج پاکستان کے پی کے اور چترال کے تاجر برادری کے بجایے انڈیا کے تاجر سنٹرل ایشیا کے تجارتی مارکٹ پر چھاگئے ہیں اور ھم ایک عدد فٹبال کرکٹ کا بیڈ وہاں نہیں لے جاسکتے کے پی کے اور خاص کر چترال کے مارکیٹ میں تجارت ،اور محنت مزدوری کرنے والے افغانی بھی کے پی کے پشاور اور چترال کے بازار سے کوئی ایک جوڑا کپڑا،جوتا کھیل کے سامان کوٹ واسکٹ خرید کر اپنے گھروں کو نہیں لے جاسکتے یہ لاکھوں افغانی 1998 سے پورے کے پی کے اور پاکستان سے کوئی سامان خرید کر اپنے ملک نہیں لے جاسکتے اس لیے پاکستان سے اربوں روپیے نقد افغانستان لے جاکر کابل قندھار ،جلال آباد اور فیض آباد کے بازار سے سودا کرنے پر مجبور ہیں
لہذہ چترال کے دونوں اضلاع کو فلحال صوبائی عبوری کابینہ میں جگہ دیکر چترال کے پرامن ترین وادی کو جائیز تجارت اور رفت آمد کے لیے محفوظ کرکے کھولا جایے ھمارے مستعد پاک آرمی کے جوان،چترال پولیس کے شاہیں سپاھی اور بارڈر پولیس کے جانباز ان سرحدی چوکیوں پر رات دن ھوشیار طور پر موجود ہیں ان کی موجودگی میں کسی ملک دشمن کا چترال کے حدود میں داخل ھونا ممکن ھی نہیں اور چترال کے سرحدات میں بسنے والے باشندے بھی اس قسم کے ملک دشمن افراد پر نگاہ رکھتے ہیں
لہذہ نئیے وزیراعلی گورنر کے پی کے اور کورکمانڈر سے خصوصی گزارش ھے کہ پاکستان دوستی میں چترال کے ان تجارتی زمینی مختصر ترین راستوں کو اس عبوری حکومت میں ہی کھول کر صوبائی حکومت کو مالی طور مستحکم کیا جایے