تازہ ترینمضامین

این ایچ اے کے یزید اور انتظامیہ کے تماشے…تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

لگتا ہے۔۔۔ بلکہ یقینا وہ دور گزر گیا جب ادارے خواہ وہ نیم سرکاری اور پرائیوٹ ہی کیوں نہ ہوں وہ۔۔۔ عوام۔۔۔ کے مسائل پر توجہ اور ان کے۔۔۔ جائز۔۔۔ مطالبے کو حل کرنے کے لیے ترجیحی بنیاد پر کام کرتے۔۔۔ عوامی رائے اور مطالبے کو اپنے دائرہ اختیار کے مطابق حل کرنے اسے آگے بڑھانے کی لگن میں رہتے۔ اور سرکاری ادارے تو دو ہاتھ آگے جاکے۔۔۔ اجتماعی مسائل پر دلچسپی لیتے اور عوامی مسائل اور مایوسیوں کو جلد ازجلد حل کرواکر اپنے لیے نیک نامی حاصل کرلیتے۔ اب اس ملک کا۔۔۔ خدا ہی حافظ ہے نہ کہیں ادارے نظر آتے ہیں اور نہ ان کا قانونی رٹ برقرار رہا ہے۔ پولیس ہو کہ عدالت۔انتظامیہ ہو دیگر محکمے سب۔۔۔ نیوٹرل۔۔۔ یا اے عوامی۔۔ ہوچکے ہیں۔۔۔ بازاروں میں مضر صحت گوشت۔قیمے چکن۔دودھ۔جوسیز۔چپس مصالے۔چائے۔گندم۔آٹا مضر صحت ہی نہیں مضر انسانیت دستاب ہیں اور ہمارے متعلقہ ادارے یا تو۔۔۔ چلے۔۔۔ رائیونڈ گئے ہوئے ہیں یا۔۔۔ گدوں کو عوام کو نوچنے کے لیے پال رکھے ہیں۔رمضان کی آمد آمد ہے حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کے بدولت غریب تو۔۔۔ دفن۔۔ ہوہی چکا۔۔۔ میڈل کلاس۔۔۔ بھی لائنوں میں آخری الواعی سانسیں لے رہا ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ غریبوں کے خاتمے کے لیے کوئی پروگرام اور پیکیج کا آغاز ہو تاکہ۔۔۔ ویکسین لگا کر غریب کی آخرت سنوار دی جائے۔ لوگوں کے مسائل اور اداروں کی کمی کوتاہیاں ایسی ہیں کہ رونا آتا ہے۔بھلے وقتوں میں لکھاری مسائل اُجاگر کرتے تو ادارے انہیں بلا کر شاباشی دیتے اور چائے پلاتے کہ ان کی رہنمائی کی اور ان کے نوٹس میں لانے کا زریعہ بنے۔ اب چند سالوں سے یہ ہو رہا ہے کہ شاباشی کی جگہ شب باشی۔ چائے پانی کی جگہ دھمکی گالیاں۔ٹارچر۔ ننگی وڈیوز۔ کچھ بھی نہ ہو۔۔۔ ای ڈی کی بندیش معمولی سوغات ہیں۔گلہ تو گھونٹ دیا اہل حکومت نے تیرا ۔۔ کہاں سے آئ صدا لا الہ اللہ۔ اب نیا قہر جو مرکزی حکومت کی جانب سے نازل ہوا ہے اس کا نام نامی ہے۔۔۔ این ایچ اے۔۔۔ جس نے یلغار۔۔۔ کرکے پہلے ہمارے خوبصورت ترکول کئے ہوئے روڈ چترال سے بونی تک اکھاڑ کے پھینک دیے حالانکہ ایک سایڈ پر روڈمکمل کر کے یہ کام کیا جاسکتا تھا مگر ہمارے مقامی انجینئر اور انتظامیہ کو ان پیٹی بند ٹھیکہ داروں کے دم مارنے کی جرت نہ ہوئی اور یہ تماشے روز دیکھنے کے لیے حاضر ہیں۔ دریا کنارے حفاظتی بندپر وڈیوز کے وڈیوز ریلیز ہوتے رہے۔۔۔ بائی پاس روڈ کو پنچرز لگانے کے مناظر۔۔۔ ویگوز۔۔۔ میں فراٹے بھرنے والے افیسرز روز دیکھتے گزرتے رہے مگر اُتر کر۔۔۔ چترالی عوام اور قرضوں کے نیچے سسکیاں لینے والے ملک کے قرض پہ چلنے والے خزانے پر ترس نہ آیا۔۔۔۔۔ بونی سے چترال تک جگہ جگہ دریا کنارے بے سیزن۔۔۔ حفاظتی بند کے نام پر۔۔۔ قرض لا دریا میں ڈال کر تماشہ نظر نہئں آرہا۔ اب مسلسل مہینوں سے۔۔۔ این ایچ اے کے یزید۔۔۔ چترال شہر کو گولین گول واٹر سے روز محروم کرکے کر بلا بنائے ہوئے ہیں اور انتظامیہ خصوصاً ڈی سی صاحب اس ظلم بر بریت پر نوٹس نہیں لے رہے۔ حالانکہ بلاسٹنگ کرواکر پہاڑ گرانے کا دور گزر چکا ہے اور مشنری کادور ہے اور ایکسویٹر کی بہتات ہے مگر وہ ہاتھی کے دانت کی طرح شو پیس کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔۔۔ بڑے پیمانے پر پہاڑوں کو بلاسٹ کرنے سے اگر چہ ٹھیکہ دار کے وارے نیارے ہوتے ہیں اور کثیر بچت بھی ہوجاتی ہے مگر جنگلی حیات آبی حیات اور مستقبل میں زخمی پہاڑوں کے سیرکنے کے خدشات اور حادثات کی جانب نہ این ایچ اے کو فکر ہے اور نہ انتظامیہ کو۔روڈ کی بندش کے نقصانات اور واٹر چینل کی بربادی ہمارے شہر کے معمولات ہیں اور گالیاں بے حس عوام اور بے بس نمائندگان کے ہوتے ہوئے۔۔۔ پبلک ہیلتھ۔۔ کو پڑ رہے ہیں۔اگر این ایچ اے چائے تو لوہے کی چادریں جو کنکریٹ میں استعمال ہوتے رہتے ہیں پایپ لائن کے اوپر بچھا کر لائن کی حفاظت کر سکتا ہے۔مگر ہمارے انتظامیہ۔۔۔ نیوٹرل اور اے عوام ہونے کے سبب چترال شہر کے ساتھ یہ ظلم روا رکھا جاتا ہے اگر۔۔۔ سرکاری۔۔ ڈنڈے میں دم خم ہوتا تو ٹھیکہ دار کی کیا جرت ہوتی کہ شیر کی آبادی کو بار بار۔۔۔ میدان کربلا بناتے۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button