موجودہ ادبی زوال کے اس دور میں بعض ایسی شخصیتیں بھی موجود ہیں جو شہرت سے کوسوں دور اور ذات کی رونماٸی سے محترز و مبرا علم و دانش کی شمعیں جلاٸے خاموش کردار ادا کرتی رہتی ہیں ۔ایسے ہی لوگ معاشرے اور سماج کیلٸے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ان کا کردار بھٹکے ہوۓ مسافروں کیلٸے نشان منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب و قلم اور علم و ادب سے وابستہ ایسی ہی ایک عظیم شخصیت محترم امیر خان میر مرحوم کی تھی جو 24 اکتوبر 2022 بروز پیر اس عالم ناپاٸیدار سے رخت سفر باندھ کر مسافران أخرت میں شامل ہوگٸے۔
محترم امیر خان میر ایک جامع الکمالات انسان تھے۔دنیا کے چکاچوند سے بے نیاز دنیا والوں سے مستغنی انسانوں کیطرف سے وضع کردہ حسن و قبح قبول و رد کے پیمانہ و فارمولا اور انکے دادوتحسین سے بے پروا مہمان خانے کے ایک گوشے میں ہروقت کتب بینی میں مستغرق اوراق کھنگالنے کی أواز اپ کیلٸے اک گونہ فرحت و انبساط کا ذریعہ اور کتابوں ہی کی دنیا میں اپنا أپ بادشاہ۔
جب بھی ملنا ہوا کھبی تفسیر قرأن پڑھنے میں مصروف پایا تو کھبی فلسفہ و تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوۓ دیکھا۔عمر مستعار کے أخری چند سالوں میں انابت الی اللہ کا بھرپور جذبہ موجزن تھا۔
امیر خان میر ایک عظیم محب وطن انتہاٸی نرم مزاج اور ہمدرد انسان تھے۔1936 اپ کا جنم بھومی تھا ۔عقل و شعور کی منزل تک پہنچتے پہنچتے ابتداٸی دینی علوم سے بہرہ مند ہونے کیساتھ ساتھ عصری تعلیم میں بھی اس وقت کے زبان زد عام و خاص لندن پاس سرٹیفیکیٹ کے حقدار قرار پاٸے۔
1958 میں محکمہ تعلیم سے بحیثیت CT ٹیچر منسلک ہوکر گورنمنٹ مڈل سکول برو سے عملی زندگی ک أغاز کیا۔تقریبا ایک سال تک علم کی روشنی بکھیرنے کے بعد اعصاب شکن ٹیسٹ انٹرویو کے بعد محکمہ موسمیات جواٸن کرلیا اور طویل دورانٸے تک امور مفوضہ سلیقہ مندی اور حسن و خوبی سے نبھاتے رہے۔موسمی حالات کے تناظر میں بروقت درست انتباہاتی رپورٹ محکمے کو ارسال کرتے رہے اور بحیثیت ڈسٹرکٹ انچارج اپنی ساٹھ سالہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد عزت و وقار سمیٹتے ہوۓ سبکدوش ہوگٸے۔
پنشن کے بعد جنرل پرویز مشرف دور کے اولین بلدیاتی نظام کے تحت پیپلز پارٹی کی شراکت سے تحصیل ناظم منتخب ہوگٸے۔اقتدار کی غلام گردشوں تک رساٸی کے باوجود بھی عجزوانکساری کا دامن تھامے رکھا اور عظیم تر قومی مفاد ہی کو ہرحال میں پیش نظر رکھا اور سیاست و اقتدار کے پرخار وادی سے پاک دامن ہی گذرگٸے۔أپ جماعت اسلامی چترال کے بانی مبانی اراکین میں سے تھے۔
چترال کی سیاست اور سیاسی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوٸے أپ ایڈوکیٹ عبد الولی خان عابد کی صلاحیتوں کے نہ صرف معترف تھے بلکہ بھرپور انداز سے انکی حمایت اور سرپرستی بھی کرتے رہے۔
غالبا2012 کے بعد أپ عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے گوشہ علم و ادب کا معتکف بن کر رہ گٸے تھے
یقینا امیر خان میر اپنے تخلص کے مصداق ادبی سماجی اور سیاسی حوالے سے میر کاروان کاکردار ہی نبھاتے نظر أٸے۔
ادبی لحاظ سے أپ کھوار فارسی اور اردو ادب میں یدطولی رکھتے تھے لیکن أپ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ادب کے وسیع معنوں سے عبارت تھی اور ادب سے شناساٸی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ادب کا مفہوم علم ادب سے وسیع ہے اگر اس حوالے سے میر کی زندگی کا جاٸزہ لیا جاٸے تو أپ طوروطریق اور میل جول کے اعتبار سے انتہاٸی مہذب ادب کا زبان کی زینت بننے کے اعتبار سے ایک بہترین ادیب اور کلام میں وزن کا بھیس کے لحاظ سے أپ شاعر بے نظیر تھے۔
بحیثیت شاعر میر کے فن کی تعمیر انسان شناسی اور انسانیت پسندی کے علاوہ اجتماعی زندگی کی ترقی و بہبود سے عبارت ہے۔
میر مرحوم کی زندگی کو قریب سے جاننے والے تو جانتے ہی ہیں اور نہ جاننے والوں کی اطلاع کیلٸے عرض ہے کہ أپ پوری زندگی انزلو الناس منازلھم اور کلم الناس بقدر عقولھم پر عمل پیرا رہے۔
میر مرحوم حسن اخلاق کا حسین مرقع تھے۔جس محفل میں اپ رونق افروز ہوتے تو سب کی توجہات کا مرکز ٹہرتے ۔أپ علما و طلبا کے انتہاٸی قدردان تھے اور ہر ایک سے انکے دینی و دنیوی مقام و مرتبے اور چھوٹے بڑے ہونے کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوۓ بھرپور عزت و اکرام اور شفقت و ہمدردی سے نوازتے تھے۔
اسبات سے انکار ممکن نہیں کہ أپ کھوار کے ادیب یگانہ اور قادر الکلام شاعر تھے۔چترالی زبان و ادب کیلٸے اپ کی خدمات مدتوں یاد رکھی جاٸیں گی۔
قدیم و جدید شعرا چترال کی حالات زندگی سے متعلق انکی مایہ ناز تصنیف;;; ککنوز::: سے اپکی ادبی صلاحیت و باریک بینی کامشاھدہ کیا جاسکتاہے۔
امیر خان میر مرحوم انجمن ترقی کھوار کے مرکزی صدر بھی رہ چکے تھے اور ماہنامہ جمہور اسلام کھوار کیلٸے اپ کے نوک قلم سے زیب قرطاس مضامین دور حاضر کے نوجوانوں کیلٸے روشنی کا مینار اور رہنماٸی کی بہترین مثال ہیں۔
امیر خان میر مرحوم کے ادبی کارناموں میں سے ایک یادگار کارنامہ جغور سے تعلق رکھنے والے کھوار کے عظیم شاعر مرزا فردوس کے مجموعہ کھوار غزل فردوس فردوسی کی بہترین انداز میں ترتیب و تدوین ہے جسے میر مرحوم کے ذوق لطیف اور ادبی نزاکتوں کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
امیر خان میر مرحوم نے بیوہ سمیت پانج بیٹے صوبیدار ریٹاٸرڈ اعجاز احمد مولانا حافظ اشفاق احمدفارغ التحصیل جامعہ اشرفیہ حال خطیب پنجاب یونیورسٹی امتیاز احمد محکمہ موسمیات الطاف احمد انتخاب احمد سمیت تین بیٹیاں سوگوار چھوڑے۔۔
رب کاٸنات محترم امیر خان میر کی بشری لغزشات و سیات کو حسنات سے بدل کر جنت الفردوس کا اعلی مکین بناٸے۔۔۔
Facebook Comments