تازہ ترینمضامین

خوش طبعی…تحریر..اقبال حیات برغوزی

انسان ایک  لفظ ہے ۔ جو ر ب کائنات کے اپنے دست مبارک سے تخلیق کا نام ہے  اور ساتھ ساتھ عقل وخرد کی دولت اور نعمت فاخرہ سے مالا ما ل ہونے کی بنیاد پر قابل تعظیم وتکریم ہے ۔اور خودخالق کائنات اس کی عزت اور وقار کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” بیشک ہم نے انسان کو مکرم بنایا ہے  اور کائنات کی ہر چیز کو اسی انسان کےلئے وجود دی گئی ہے۔ اور انسان کو صرف اپنی ذات کی فرمانبرداری پر مامور کیا ہے۔ اور ساتھ ساتھ شیطان ملعون اور نفس کے تقاضوں کی برآوری سے خود کو بچانے کےلئے رہنمائی سے بھی نوازا ہے۔انسانوں میں شکل وصورت ،قد کاٹھ اور خدوخال میں جہاں یک رنگی نہیں وہاں کردار،گفتار اور دیگر اوصاف کے لحاظ سے بھی مماثلت نہیں پائی جاتی ۔اگرچہ شکل وصورت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر انسانوں کے اندر پائے جانے والے اوصاف میں خوش طبعی کی صفت اپنی نوعیت کے اعتبار سے نمایاں ہوتی ہے اس لفظ کو لکھنے اور پڑھنے سے ہی دل میں لذت کی کیفیت محسوس کی جاتی ہے ۔غموم اور پریشانیوں کے بادل دل سے نکلنے کا احساس ہوتا ہے ۔خوش طبعی اخلاق کی ایک بہتریں صفت ہے ۔یہ صفت ہر کسی کی قسمت میں نہیں آتی۔ اور نہ اس کا تعلق صاحب ثروت ہونے یا غربت سے بنتا ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی ودیعت ہوتی ہے جو کسی کو ملے تو وہ خوش نصیب ہے ۔اس کی زندگی لذتوں سے لبریز ہونے کے ساتھ ساتھ ہر کسی کے لئے منظور نظر ہوتی ہے۔ خوش   طبع انسان پر نظر پڑتے ہی طبیعت میں طمانیت اور دل میں سرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔  رنج وغم اور پریشانیوں کے اثرات خوش طبع انسان کے چہرے کی کیفیت کو متاثر نہیں کرسکتے ۔ اور ایسے لوگ ہر قسم کے نامساعد حالات سے واسطہ پڑنے  کےباوجود پھول کی طرح کھلتے ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور اپنی خوش طبعی  کی بنیاد پر ہر وقت چاند کی طرح چمکتا نظر آتا تھا۔ ان کے بدترین دشمن کی نظر بھی ان پر پڑتے ہی اپنے دل کے بند دروازے اس کے لئے کھولنے پر مجبور ہوتا تھا۔ اس لئے اللہ رب العزت اپنے محبوب پیغمبر کی خوش طبعی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں” اے پیغمبر اگر تم ترش رو ہوتے تو کوئی بھی تمہارے قریب نہ آتا۔خوش طبع انسان مقناطیس کی طرح ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور ہر کوئی ان سے قربت پیدا کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ خوش طبعی کےساتھ اگر” جو کی روٹی تلخ چائے کے ساتھ سامنے آئے تو پیٹ بھرنے کے باوجود کھانے کی رغبت پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس اگر ترش روئی کے ساتھ من وسلوی بھی سامنے رکھا جائے تو پیٹ خالی ہونے کے باوجود  کھانے کو دل نہیں کرے گا۔خوش طبع انسان پر نظر پڑتے ہی بے ساختہ  زبان  پر “آہا ” اور ترش رو انسان کے لئے “اوہ” کے الفاظ آئینگے حضرت حسن روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خو ش طبعی کے ساتھ کسی کو سلام کہنے پر صدقہ کا ثواب اور اپنے والدیں کے چہرے کی طرف نظر اٹھانے پر حج کے برابرثواب ملے گا۔گھر کے بڑے اگر خوش طبع ہوں تو غربت وافلاس کی حالت سے دوچار ہونے کے باوجود زندگی لذت سے لبریز معلوم ہوگی۔ اگر گھر کے بڑے بدخو،تندخو،جھگڑالو اور ترش روہوں تو ہر قسم کی نعمتوں کی فراوانی کے باوجود گھر سے بیزاری کا احساس ہوگا۔ ایک چینی مقولہ ہے کہ ترش رو انسان کو دوکانداری نہیں کرنی چاہیے۔بحرحال اس قسم کے بہت سے اوصاف خوش طبعی کے دامن میں بندھے ہوئے ہیں یہ جس کی نصیب میں آئے وہ اپنے رب اور ان کے بندوں  کا پسندیدہ انسان ہوگا۔تو پھر مسکرا کر جیو۔ زندگی مسکرانے کے لئے کافی نہیں اس میں ترش روئی کو شامل کیوں کریں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button