خدمت خلق اور رفاہی کام اسلام کی نگاہ میں عظیم نیکی ہیں وقت اور حالات کے مطابق بڑی عبادت بھی۔قابل تحسین اور لاٸق تقلید ہیں وہ افراد جو انفرادی اور اجتماعی طور پر خلق خدا پر شفقت کرتے اور انکے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔
ملک بھر کیطرح چترال کی سطح پر بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو ہر وقت خدمت خلق کیلٸے تیار اور چوکس رہتے ہیں۔
انہی میں سے ایک اہم نام قاضی خلیل الرحمان مرحوم أف سنگور کے فرزند ارجمند نوجوان عالم دین قاضی ولی الرحمان انصاری کابھی ہے جو مختلف قدرتی أفات کے موقع پر تین درجن کے قریب نوجوان علما اور مخلص رضاکاروں کیساتھ الحسنات سوشل گروپ کے نام سے خلق خدا کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔
مفلس نادار خصوصا سیلاب متاثرین کی اشک شوٸی کیلٸے کمربستہ اور انکے دردوں کا مداوا بنکر منظر پر چھاٸے رہتے ہیں۔حالیہ سیلاب اور بارشوں کیوجہ سے موری گولین اور شیشی کوہ میں چند ایسے لاچار اور مجبور افراد بھی قدرتی أفات کے لپیٹ میں أکر کھلے أسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور تھے انہوں نے اس موقع پر پانچ گھرانوں کیلٸے ہوم شیلٹر کا انتظام کیا جنپر کام جاری ہے اور وہ بہت جلد خیموں سے نکل کر تیار گھروں میں منتقل ہوجاٸیں گے ۔یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ مزکورہ پانچ گھرانے ایسے ہیں کہ جن کے پاس قوت لا یموت کے طور پر بھی وساٸل دستیاب نہیں اور کٸی سالوں سے انکے لٸے ماہانہ راشن کا انتظام بھی انصاری ہی کرتے أرہے ہیں۔
خدمت خلق کا ایسا جذبہ اور اسکو عملی جامہ پہنانا بظاہر اسان نظر أتاہے لیکن اس راہ میں جن مشکلات و تکالیف سے دوچار ہونا پڑتاہے اس کا صحیح اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں کہ جن کے اندر خدمت کا جذبہ تو موجزن رہتا ہے لیکن وساٸل و اسباب انکے ہاتھوں کو کھلنے نہیں دیتے اور وہ بھرپور کوشش و خواہش کے باوجود کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں کیونک اسطرح کے کاموں میں انتظامی امور چلانے کے لٸے مالیات کی ضرورت ہوتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ فعال بےلوث اور محنت و لگن سے کام کرنے والے افراد اور کارکنان کی بھی ضرورت پڑتی ہے جو سماجی خدمات کے مشن کو أگے بڑھانے کیلٸے اپنی صلاحیتوں خاص کر اپنے وقت کی قربانی دیکر مخلوق خدا کو فاٸدہ پہنچاٸیں۔
قاضی کے پاس مخلص رضاکاروں کی تو کمی نہیں البتہ مالیات کے حوالے سے فکرمند ضرور رہتے ہیں کیونکہ سوشل گروپ غیبی امداد کی منتظر اکثریت کی نظروں سے اوجھل چند فراد کا مجموعہ ہے جو خدمت خلق کے جذبے سے سرشار اور کچھ کر گذرنے کا عزم مصمم رکھتے ہیں۔
یقینا ایسے لوگوں کی سرپرستی انکے ساتھ تعاون اور انکی حوصلہ افزاٸی سماج پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ۔
یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ چترال کی سطح پر مالی طور پر مستحکم افراد کی کمی نہیں اگر وہ زکواة صدقات اور خیرات کے زریعے ان افراد کی پشت پنایی کریں اور انکو معمولی سہارا بھی دیں تو غریبوں اور بے سہاروں کے دردوں کا مداوا ہوسکتایے خصوصا موجودہ حالات میں سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد بریپ کھوت گولین اور شیشیکوہ میں خیموں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہو چکے ہیں وہ ان مفلوک الحال لوگوں کیلٸے ایک ایک اور دو دو کمروں پر مشتمل مکانات کا انتظام کرکے انکی بے چینی دور کرانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
الحسنات سوشل گروپ کے سماجی اور رفاہی کاموں کا اندازہ پوسٹ میں موجود تصویروں سے لگایا جاسکتاہے۔میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دوسری شخصیات یا تنظیمات اس حوالے سے خاموش ہیں یا کام نہیں کرتے ۔
قدرتی أفات کے موقع پر مولانا قاری فیض اللہ مولانا سید حکیم اور الخدمت کی خدمات کا تو اک زمانہ معترف ہے۔
انشا اللہ حالیہ سیلاب زدگان کیساتھ تعاون اور ریلیف پہنچانے کے حوالے سے جن جن شخصیات اورتنظیمات نے اپنی بساط سے بڑھکر یا حصہ بقدر جثہ کارہاۓ نمایاں انجام دۓ ہیں انہیں مستقل پوسٹ میں تفصیلا زکر کیا جاۓ گا۔لیکن الحسنات سوشل گروپ اس حوالے سے قابل تعریف ہے کہ وہ بغیر کسی مستقل نظم کے مقامی نوجوان علما کی سرپرستی اور مقامی وساٸل کیساتھ میدان عمل میں ہے۔اللہ تعالی انکا حامی و ناصر ہو۔
Facebook Comments