تازہ ترینمضامین

مولانا محمدصاحب الزمان مرحوم* حیات و خدمات تحریر: حذیفہ خلیق تعارف و خاندانی پس منظر

مولانا محمد صاحب الزمان مرحوم کی ولادت باسعادت 1925 کوچترال کے خوبصورت گاؤں ایون (تھوڑیاندہ) میں ہوئی۔اپ کے والد مولوی محمد شفیع مرحوم پڑھے لکھے شخص تھے۔ریاستی دور میں درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ ساتھ ریاستی دفتری امور بھی انجام دیتے تھے اسلئے ”مرزا“ کہلاتے تھے، یوں مرزامحمد شفیع نام سے موسوم تھے۔ مولانا محمدصاحب الزمان کے جد امجدنے زیارت کا کا صاحب نوشہرہ سے ترک وطن کرکے ایون میں سکونت اختیار کی تھی۔اسلئے مولانا موصوف نسلا پشتون تھے۔

تعلیمی زندگی*:
مولانا محمدصاحب الزمان مرحوم علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے، خاندانی روایات کے مطابق ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی،اس زمانے مین ایون علماء کا گرھ ہوا کرتا تھا۔ چترال اور قریبی اضلاع کے دور دراز کے دیہات سے اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے حصول کیلئے ایون بیجھتے تھے، مولانا مرحوم نے بھی انتدائی کتابین ایون ہی کے علماء سے حاصل کی۔ابتدائی تعلیم کے بعد حصول تعلیم کی غرض سے جہانگیرہ،پشاور اور دارالعوم سرحد کے علماء کے زانوئے تلمذ تہہ کئے۔ علمی تشنگی کی تسکین اور اساطین علم سے کسب فیض کی غرض سے برصغیر کے علمی درسگاہ ”دارالعلوم“ دیوبند کا قصد کیا۔وہیں سے علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی، آپ کا شمار مولانا حسین احمد مدنی کے خاص الخاص شاگردوں میں ہوتا تھا۔اکیس سال کی عمر میں سند فراغت و دستار فضیلت حاصل کی۔

دارلعلوم دیوبند میں خدمات:*
1946 میں فراغت کے بعد دارلعلوم دیوبند کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوئے، مولانا حسین احمد مدنی کے صاحبزادے مولانا اسعد مدنی ؒاور مولانا ارشد مدنی(حفظہ اللہ) بھی اپکے حلقہ درس میں ابتدائی تعلیم کے مدارج طے کئے۔
درس و تدریس کے ساتھ اپنی ادب شناسی و علمی تفوق کی بدولت دارلعلوم دیوبند کے شعبہ تصنیف تالیف سے وابستہ رہے اور قیام دیوبند کے دوران مجلس تصنیف و تالیف دارالعلوم دیوبندکے رکن رہے۔

پاکستان واپسی:*
1940 سے 1947 تک اپ نے برصغیر کی آزادی اور تحریک پاکستان کو قریب سے دیکھا، قیام پاکستان کے بعد 1948 کو اپ پاکستان واپس لوٹے۔پاکستان آمد کے بعد صوبہ سرحد کے مشہور درسگاہ جامعہ حقانیہ میں تدریس کا آغاز کیا، اپکا شمار مولانا عبد الحق رحمتہ اللہ علیہ کے قریب ترین ساتھیوں میں ہوتا تھا۔کچھ عرصہ جامعہ حقانیہ کے ناظم بھی رہے۔

چترال واپسی:*
مولانا مرحوم ایک طویل عرصے کی غریب الدیاری و علمی اسفار کے بعد بلاخر1949 کے اوائل میں آبائی وطن چترال واپس آئے۔چترال آمد کے بعدریاست چترال کے بڑے ہائی سکول میں لسانیات و ادبیات کے استاد مقرر ہوئے۔ساتھ ہی بازار میں اسلامی کتب کی طباعت اور کتابت کی دوکان کھولی، ایک بہرین خوشنویس ہونے کی حیثیت سے کتابت و طباعت سے معاشی طور پر وابستہ ہوئے۔

دارلعلوم اسلامیہ چترال میں خدمات*:
1952 میں آ پ نے ریاستی حکومت اور محکمہ تعلیم کے تعاون سے دارالعلوم اسلامیہ عربیہ چترال کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، ایک عرصہ تک دارلعلوم چترال کے مہتمم بھی رہے۔شاہی مسجد چترال میں خطابت:*
1962 میں آپکو شاہی مسجد چترال کا خطیب مقرر کیا گیا۔ شاہی مسجد چترال چترال کی تاریخی مسجد ہے، جسکی تعمیر اعلی حضرت شجاع الملک مرحوم نے کی۔ شاہی مسجد کی تعمیر میں مہتر چترال نے آگرہ اورزیارت حضرت کاکا صاحب نوشہرہ کے معماروں کی خدمات لیں۔دارالعلوم چترال اور میزان شریعت بھی اسی مسجد میں تھے۔ 1919 کو شاہی مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوااور 1925 کو تاریخی مسجد کے تعمیر مکمل ہوئی، حسن اتفاق اسی سال مولانا مرحوم کی پیدائش ہوئی۔37 سال کی عمر میں خطابت کے منصب پر فائز ہوئے۔اور39سال خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ شاہی مسجد چترال کا شمار ملک پاکستان کے عظی
مساجد میں ہوتا ہے۔شہر چترال کے وسط میں واقع شاہی مسجد قدیم فن تعمیر کی عظیم شاہکار ہے، پرشکوہ عمارت شاہان چترال کی دینداری و مذہبی لگاؤ کا امین ہے، اعلی حضرت شجاع الملک مرحوم اسی مسجد کے اک گوشہ میں آرام فرما ہیں۔
مولانا مرحوم وعظ، تقریر اور خطبے میں عموما اختصار اور جامعیت سے کام لیتے تھے، لمبی گفتگو اور طویل تقاریر سے پرہیز کرتے، شاہی مسجد میں نمازیوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر اختصار کا خیال رکھتے تھے، خطبات جمعہ اور عیدین میں روزمرہ کے مسائل اسلامی عقائد اور احکامات پر شگفتہ گفتگو کرتے، گاہے گاہے عالم اسلام کو درپیش حالات پر روشنی ڈالتے مسلکی اور سیاسی گفتگو سے پرہیز برتتے تھے۔اس موضوع پر ان سے گفتگو ہوتی تو فرماتے نمازیوں میں مختلف الخیال لوگ ہوتے ہیں انہیں عقائد، عبادات، احکامات اور روز مرہ کے مسائل سے آگاہ کرنا زیادہ اہم ہے۔

*صحافتی خدمات:*
قیام دارلعلوم دیوبند کے دوران مولانا مرحوم تصنیف و تالیف کے شعبہ سے وابستہ رہے۔جو اس بات کی غماز ہے کہ مولانا مرحوم ادب و صحافت میں فطری دلچسپی اور قلمی شوخی و صلاحیت رکھتے تھے۔ چترال آنے کے بعد بھی انکی صحافتی دلچسپی برقرار رہی۔1965 میں آپ نے عوامی حقوق اور اسلامی اقدار کی پاسداری کے لئے چترال سے ایک ہفت روزہ مجلہ ”تریچمیر“ جاری کیا۔نومبر 1965 میں پہلا شمارہ منظر عام پہ آیا اور اہلیان چترال کے لئے پہلا تجربہ تھا۔مولانا مرحوم مجلہ ”تریچمیر“ کے مالک، پبلشر اور مدیر مسؤل یعنی چیف ایڈیٹر تھے۔ صحافتی حیات میں انکے رفیق کار ایون ہی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر، ادیب اور صحافی ولی زار خان ولی تھے جو ایڈیٹر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔مجلہ تریچمیر چار سال کامیابی سے جاری رہنے کے بعد 1970 میں بند ہوا چنانچہ دسمبر 1969 میں اس کا آخری شمارہ شائع ہوا۔
شعبہ صحافت جامعہ پشاور نے ہفت روزہ تریچمیر کی خدمات اور اس کے چیف ایڈیٹر و پبلشر کی ملی مساعی پر 1992 میں ایک مقالہ تیار کیا۔ مقالہ نگار معراج الدین نے چار سالہ صحافتی تاریخ میں ہفت روزہ تریچمیر کی دو بڑی کامیابیوں کا تذکرہ کیا۔مقالہ نگار کے مطابق مولانا صاحب الزمان نے اپنے اخبار کے ذریعے کھوار صفحات میں کھوار زبان کو صحافتی زبان کا درجہ دیا۔ریڈیو پاکستان کے کھوار پروگرام کو ہفت روزہ تریچمیر کی وساطت سے کھوار لکھنے والے مل گئے اور ماہنامہ جمہور اسلام پشاور میں ہفت روزہ تریچمیر کی وساطت سے کھوار صفحات شامل کئے گئے، شروع شروع میں مولانا محمد صاحب الزمان خود بھی تریچمیر کے ساتھ ساتھ جمہور اسلام کے لئے بھی لکھتے رہے۔1965 سے اب تک کھوار زبان کی ترویج و ترقی میں جتنا کام ہواہے اس کی بنیاد رکھنے والوں میں ہفت روزہ تریچمیئراور اس کے مدیر مسؤل مولانا محمد صاحب الزمان کا نام گرامی بھی شامل ہے، اس حوالے سے شہزادہ حسام الملک مرحوم، پروفیسر اسرار الدین صاحب اور وزیر علی شاہ مرحوم کے ساتھ آپکا قریبی رابطہ رہا، مقالہ نگار معراج الدین نے اپنے مقالے میں ہفت روزہ تریچمیر کی ایک اور بڑی خدمت کا ذکر کیاہے اور ورقمطراز ہیں کہ ہفت روزہ ترچمیر نے چترال میں تعلیمی، سماجی،سیاسی اور معاشی ترقی کے لئے بیداری کی لہر پیدا کرکے سابق ریاست کی انضمام پاکستان اور نئے ضلعے کی قیام کی راہ ہموار کی۔ان خدمات کے مقابلے میں اخبار کو اشتہارات اورمالی فوائد کی صورت میں کوئی پذیرائی نہیں ملی، مولانا مرحوم نے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اس اخبار کی اشاعت میں صرف کرنے کے بعد مالی مجبوریوں کے پیش نظر ۷۲ دسمبر 1969 کو ڈیکلیریشن کی تنسیخ کے لئے درخواست دی اور مجلہ تریچمیر کے دفاتر بند کئے۔*تدریسی و تصنیفی خدمات:*
مولانا مرحوم کی شخصیت کا یہ درخشان پہلو ہے کہ تدیس جیسی مقدس پیشہ سے وابستہ رہے، ابتداء دارالعلوم دیوبند ثانیا جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور آخری ایام حیات میں سٹیٹ کے بڑے سکول میں لسانیات اور ادبیات پشتو کی تدریس سے وابستہ ہوئے۔قیام دارلعلوم دیوبند کے دوران شیخ الادب مولانا اعزاز علی رحمہ اللہ کی چند کتابوں پر حواشی بھی لکھے ہیں۔مطول پر آپ کا لکھا ہوا حاشیہ ایک علمی شاہکار ہے۔
1985 تک پشتو اور خوشنویسی کی تدریس سے وابستہ رہے۔سیاسی و تبلیغی زندگی:*
1985 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور میدان سیاست میں قدم رنجا ہوئے، علمائے دیوبند کی نمائندہ تنظیم جمعیت علماء اسلام چترال کے جنرل سیکٹری مقرر ہوئے۔ 1986 میں آپ نے چترال میں پہلی مرتبہ تین روزہ خلافت راشدہ کانفرس کے انعقاد کا اہتمام کیا جو بہت کامیاب ثابت ہوا۔اس کانفرنس میں ملک بھر کے جید علماء کرمام نے شرکت کی،مولانا مرحوم تادم مرگ جمعیت علماء اسلام کی پلیٹ فارم سے نفاذ اسلام کی جدوجہد میں مصروف رہے۔
سیاسی زندگی کے ساتھ عوام الناس میں دین کی احیا ء کے کوششوں میں رہے۔تبلیغی جماعت پاکستان کے شوریٰ کے رکن رہے۔ضلع چترال کے اولین امیر رہے، اس زمانے میں شاہی مسجد چترال تبلیغی مرکز تھی۔انکی سرپرستی میں کئی بار شاہی مسجد میں سہ روزہ تبلیغی اجتماعات بھی ہوئے۔حضرت مولانا جمشید صاحب مرحوم اور حاجی عبد الوہاب صاحب مرحوم بھی شرکت کرتے رہے۔مولانا مرحوم اپنی وفات تک تبلیغی جماعت سے منسلک رہ

*بہار آخر شد:*
مولانا مرحوم کی کثیر الجہتی زندگی میں سادگی ہمیشہ ساتھ رہی۔عام زندگی میں دھیمے مزاج کے مالک تھے۔ہر معاملے میں انکساری، تواضع اور صبر و تحمل سے کام لیتے تھے۔ مولانا مرحوم کی مزاج میں نفاست مشہور تھی۔اتباع سنت کا یہ عالم کہ ساری عمر عمامہ باندھتے رہے۔سفید اجلے لباس میں ملبوس کم گو اور معاملات کے صاف اور کھرے تھے۔سکول کی زندگی میں نظم و ضبط کے معاملات میں سخت گیر تھے، اس زمانے میں چترال کے اندر نقل کی وباء دھیرے دھیرے پھیل رہی تھی اور مولانا مرحوم نقل کے خلاف اپنی سخت گیری کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔
مولانا مرحوم کو سانس اور دمے کی شکایت اکثر رہتی تھی، بیماری کے دوران انکے شاگرد رشید ڈاکٹر فضل قیوم صاحب انکے پاس رہے، انہتائی سخت نگہداشت کے باوجود جانبر نہ ہوسکے، بیماری اور نقاہت روز بروز بڑھتی رہی۔ بلآخر علمائے دیوبند کے ایک ہونہار فرزند اور چترال کے نابغہ روزگار شخصیت گیارہ جون ۱۹۹۱ کو جہان فانی سے حیات جاودانی کی طرف کوچ کر گئے (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔اللہ تعالی مرحوم کے مرقد پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button