وطن عزیز کے میرے صوبے کے چند اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں ۔قوم کے چند سپوت مردو خواتین مہینوں سے انتخابی مقابلے جیتنے کی تگ و دو کر رہے ہیں دن رات ہر گھڑی وہ اور ان کے کارندے گلی گلی گھوم پھر رہے ہیں ان کے نام کے بینرز اور اشتھارات سے درو دیوار سجے ہیں ہر طرف دوڑ دھوپ ہے ۔۔کچھ پارٹی کے لوگ ہیں کچھ آزاد ہیں ۔پارٹیاں اپنا ماضی دھرا رہی ہیں آزاد لوگ پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہٕیں عوام ہیں کہ جھوٹ بولتےبولتے جھوٹے وعدے کرتے کرتے تھک گۓ ہیں ۔کارنر میٹنگیں ہیں اجتماعات ہیں ۔رشتے ناطے تازہ کیۓ جارہے ہیں دوستیاں نبھاٸی جا رہی ہیں ۔الیکشن کے عملے کو تربیت دی گٸ ہے الیکشن کے ہدایت نامے میں سختی سے ہدایت لکھی گٸ ہے کہ صاف شفاف الیکشن ہو ۔۔الیکشن کا دن آۓ گا ۔ایک دن پہلے الیکشن کے سامان انتخابات کے مرکزوں میں پہنچاۓ جاٸیں گے ۔۔عملہ پہنچے گا ۔حفاظتی دستے ہونگے صبح سویرے عملہ مستعد ہوگا اور فرض نبھا رہا ہوگا ایک اہم قومی فریضہ نبھایا جاۓ گا ۔ووٹر آٸینگے پولنگ شروع ہوگی ۔ یہ اس سرگرمی کا خلاصہ ہے سوال یہ نہیں ہے کہ بس ہوگیا سو ہو گیا سوال یہ ہے کہ کیسا ہوگیا کیا قوم نے صداقت کا ثبوت دیا؟ کیا نمایندوں نے درست نہج پہ اپنے أپ کو پیش کیۓ ؟۔اس جدو جہد کے دوران کتنا سچ بولا گیا کتنا جھوٹ بولا گیا ۔کتنی منافقت ہوٸی کتنی صداقت ہوٸی ۔کتنے لوگوں کے ضمیروں کا سودا ہوا کتنوں نے اپنے أپ کو بھیج ڈالا ۔کتنوں نے کتنوں کو دھوکہ دیا کتنی حماقتیں ہوٸیں ۔کہاں کہاں مناسب اور اہل نماٸیندوں کو چنا گیا ۔کس پارٹی پر لوگوں نے بھروسہ کیا کس کو رد کیا ۔یہ سب سوالیہ نشان ہیں اور ایسے سوال جن کا کوٸی جواب نہیں ۔۔بتانے والوں نے بلدیہ کے پچھلے ٹرم کے بارے میں بتایا کہ ہر وی سی کو چار سال میں پنساٹھ پنساٹھ لاکھ روپے دیۓ گۓ مدت ختم ہوٸی تو کسی نے پوچھا تک نہیں کہ یہ پیسےکہاں خرچ ہوۓ کتنا کام ہوا ۔اب بھی ایسا ہی ہوگا ۔۔پھر منتخب نماٸیندوں کا سراغ نہ ملے گا بندر بانٹ ہوگا اور فنڈ کا پتہ نہ چلے گا ۔۔یہ ہے اس قوم کا المیہ ۔۔۔اس کا کوٸی کام ڈھنگ کا نہیں ہوتا ۔اس کے قومی اور صوباٸی اسمبلیوں کے ممبروں کی حالت ہے کہ بھیجے جاتے ہیں خریدے جاتے ہیں ۔وزیر اعظم برملا کہتا ہے کہ خریدو فروخت جاری ہے ۔ بڑے افسوس سے یہ رونا رو رہا ہے ۔۔۔ترس آتا ہے وہ جو بھی اس قوم کا وزیر اعظم ہے ۔۔یہ لوگ ایوان میں اگر تبدیلی لاٸینگے بھی تو قوم پوچھتی ہے کہ افراد بدلیںنگے یا نظام بدلے گا اگر نظام کا ٹھیک نہیں ہونا تو افراد بدل کے کیا کریں گے ۔ہم نے بہت تجربہ کیا ۔ہماری قسمت میں زہرپینے کے سوا ہمیں ملا ہی کیا ہے ۔۔لے دےکے دنیاکے سامنے اپنے آپ کو آزاد کہتے آرہےہیں بس یہ جذبہ بھی شرم کے مارے ٹھنڈپڑ جایے گا ۔۔جوچہرے سامنے ہیں ان کو کام کرنے دو ان کی مدت پوری ہونے دو ۔پھر آپ کا مسلہ نہیں ہمارا مسلہ ہے ۔۔ہماری قسمت کیا پلٹا کھاتی ہے یہ ہم دیکھیں گے ۔ہم امید نہیں رکھ سکتے کہ انتخابات کے دن تبدیلی کا دن ہوگا ۔۔بس چہرےبدلیں گے ہمارے آزمایے ہوے چہرے ۔۔اسی نظام کے تحت ان چہروں پر بھی گرد پڑ جاۓ گا اور ہم بس سب کچھ بھول جاٸیں گے ۔۔۔انتخابات کے دن یہی کچھ ہوگا ۔ہم امید نہیں باندھتے اس لیۓ کہ انقلاب اور انقلابی تبدیلی کی امید نہیں ۔یہ سب باتیں انتخابی جدو جہدیوں کو اچھی نہیں لگیں گی ۔لیکن ان کو اپنی پڑی ہے ہمیں اپنی پڑی ہے ۔۔۔
اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے ۔۔۔
یہ سب دھواں ہے کوٸی آسمان تھوڑی ہے ۔۔۔
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے ۔۔
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے ۔۔
Facebook Comments