تازہ ترینمضامین

دھڑکنوں کی زبان ……مکان کی زینت مکینوں سے ہے…….محمد جاوید حیات ”“

اتفاقاً میرے کمرے کی کھڑکی مشرقی اُفق کی طرف ہے۔میں ہر صبح سورج نکلنے اور کبھی کبھی رات کوچاند طلوع ہونے کامنظر دیکھتا ہوں بہت محظوظ ہوتا ہوں اللہ کی کائنات کتنی خوبصورت ہے کبھی اس منظر کو دیکھ کر انگریز لکھاری فلوبر یاد آتا ہے ابھی مر رہا تھا کہا کھڑکی کھلی رکھو باہر کا منظر دیکھا کہا خوبصورت منظر ہے۔پھر اس دنیا کو سدھارے۔۔
اللہ کی کائنات خوبصورت ہے اور اللہ نے اپنے خلیفہ اشرف المخلوقات (انسان) کو یہاں پر بھیج کر مذید اس کو خوبصورت بنایا ہے۔۔یہ انسان مکان بناتا ہے باغ لگاتا ہے پھول کھلاتا ہے عالی شان محلات بناتا ہے اور سب یہاں چھوڑ کر چلا جاتا ہے دنیا خوبصورت ہوتی جاتی ہے اور یہ سلسلہ چل رہا ہے۔تاج محل بنا۔بنانے والا مٹی کے نیچے سو رہا ہے۔لال قلعہ شاہی محلات شاہی باغات بنے بنانے والے مٹی ہوگئے وہ موجود ہیں۔۔۔لیکن کائنات کا جو حصہ ہمارے حصے میں آیا ہے وہ سب سے خوبصورت ہے جو سورج میرے کمرے کی کھڑکی سے اپنی دھوپ میرے کمرے میں اُتارتا ہے وہ یہ منظر ہر کہیں دیکھاتا ہے جو چاندنی میرے کمرے میں اُترتی ہے وہ کہیں اور بھی اُترتی ہے یہ فطرت کی خوبصورتی ہے لیکن ہمارے حصے میں اس کو مذید سجانے کی جو ذمہ داری آئی ہے اس میں ہم صفر ہیں۔ہمارے رب نے ہمیں سب کچھ عطا کیا ہے ہمارے پاس دریا ہیں دریاؤں کے دلکش کنارے لیکن یہ کنارے کوڑ کواڑ سے ہمارے ہاتھوں بھر دیے جاتے ہیں۔ہمارے پاس سمندر ہیں سمندروں کے کنارے دعوت نظارہ دیتے ہیں لیکن ہم نے ان کو حس و خاشاک سے بھر دیا ہے۔ہمارے پاس جنگلات ہیں ان کو ہم نے کاٹ کاٹ کے چٹیل پہاڑوں میں بدل دیا ہے ہمارے پاس سبزہ زار ہیں لیکن وہ ویران ہیں ہم نے قدرت کی دی ہوئی کسی نعمت، کسی خوبصورتی کی حفاظت نہیں کی۔سیاحت آج کل صنعت بن گئی ہے وزیر اعظم پاکستان اس کی ترقی کا خاص خواہاں ہے سیاح اِدھر اُدھر آتے بھی ہیں لیکن جہان آتے ہیں ان کو اس قدرتی خوبصورتی کی کوئی قدر نہیں۔۔ان کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ جہان جائیں گند نہ پھیلائیں لیکن چترال کا خوبصورت سیاحتی مقام بمبوریت چترال میں جہان سیاح بہت بڑی تعداد میں آتے ہیں لیکن اپنے پیچھے ایک غیر ذمہ دار قوم کا نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ان کو اس خوبصورتی کی کوئی پرواہ نہیں۔اس پاک سرزمین کے دوسرے مقامات بھی ہماری لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ہمارے ہسپتال ہماری لا پرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ہمارے بڑے بڑے پارک ہماری گندی طبیعت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔آپ ہمارے شہروں گلی کوچوں میں جائینگے تو انگشت بدندان ہونگے۔ کراچی گوادر پورٹ اسلام آباد پارکز راول ڈیم آگے مری ایوبیا نتھیاگلی ایبٹ آباد کاغان ناران سوات مالم جبہ کمراٹ کس کس جنت کا ذکر کیا جائے۔یہ اپنی خوبصورتی ہمارے ہاتھوں کھو رہے ہیں۔سیاحت کا فروع اس وقت ممکن ہے جب سیاحوں کے لیے قوانین بنائے جائیں اس پر عمل کرایا جائے۔اور سیاحتی علاقوں میں مکینوں کے لیے بھی کہ وہ سیاحوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کریں۔ہمارے ہاں باہر ملکوں کے سیاح بھی آتے ہیں۔ وہ ہماری دھرتی پر کاغذ کا ایک پرزہ بھی نہیں چھوڑتے۔وہ ہماری گلیوں میں ایسے ادب سے قدم رکھتے ہیں جیسے یہ کوئی ان کے لیے متبرک جگہ ہو۔یہ ہمارے پھول نہیں توڑتے ہمارے چشمے گندے نہیں کرتے بغیر اجازت ہمارے باغیچوں میں داخل نہیں ہوتے۔مگر ہم اپنے ہوتے ہوئے اس کی پرواہ نہیں کرتے۔۔مکان کی خوبصورتی مکینوں کے اعلی ظرف اور پاکیزہ طبیعت سے وابسطہ ہے جس دنیا کو رب نے خوبصورت بنایا ہم نے مذید اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا ہے۔ دنیا کا ہر خوبصورت منظر ہمارے پاس ہے اس کی قدر کرنا ہمارا فرض ہے۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button