تازہ ترینمضامین

دادبیداد……نقل یا چوری…….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

وزیراعلیٰ محمود خان نے چکدرہ لوئر دیر کے امتحانی سنٹر میں ایک بااثر افیسر کے بیٹے کو الگ کمرے میں بٹھا کر نقل کی سہولت دینے کا نوٹس لیا اور ذمہ دار افیسروں کے خلاف رپورٹ درج کرکے ان کو جیل بھیجدیا گیا گویا اعلیٰ سطح پر اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ امتحان میں نقل قابل دست اندازی پولیس جرم ہے اس جرم پر گرفتاری ہوسکتی ہے قید وبند کی سزابھی ہوسکتی ہے اس واقعے کی محکمانہ انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے محکمانہ انکوائری کے بعد پتہ لگیگا کہ محکمہ کیاکرتا ہے؟اگر کسی افیسر کو تبدیل کیا گیا تو اس کو سزا کی جگہ انعام تصور کیاجائے گاانکوائری کی رپورٹ آنے سے پہلے دوباتیں سامنے آگئی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ پہلی بار اخباری نمائیندوں نے امتحانی ہال میں ہونے والی بے ضابطگی کوکیمروں کی مدد سے ویڈیو بناکر بے نقاب کیا ہے اخباری نمائیندوں کو اس جرء ت اوربہادری پر داد ملنی چاہیئے بلکہ انعام اور ایوارڈ ملنا چاہیئے دوسری بات یہ ہے کہ نقل کو چوری قرار دے کر چوروں کو گرفتار کیا گیا ہے اور یہ ملاکنڈ کی تاریخ میں دوسری بار ہوا ہے۔

61سال پہلے کا واقعہ محکمہ تعلیم سے وابستہ بزرگوں کو آج بھی یاد ہے1960ء میں پروفیسر پریشان خٹک نوجوان لیکچرر تھے جہانزیب کالج سوات میں امتحان پران کی ڈیوٹی لگائی گئی اس وقت سوات میں شرعی قوانین نافذ تھے۔قاضی القضاۃ میزان شریعت میں بیٹھ کر فیصلے سناتا تھا قتل کے مجرم کوقصاص کی سزا دی جاتی تھی۔چوری کے مجرم کو ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی جاتی تھی اُس زمانے میں آج کی طرح باجماعت نقل مارنے کا رواج نہیں تھا ایک آدھ بندہ نقل میں پکڑا جاتا تو اس کا پرچہ منسوخ ہوتا جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ایک سال،دوسال یا تین سال تک امتحان دینے پر پابندی بھی ہوتی تھی۔اس سے زیادہ سزا نہیں تھی امتحان کے دوسرے روز پریشان خٹک نے ایک طالب علم کو نقل کرتے ہوئے پکڑلیا۔نقل کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کیا اور اپنی طرف سے وقوعہ کی رپورٹ لکھ کر قاضی القضاۃ(چیف جسٹس) کو بھیجدیا۔رپورٹ میں اُنہوں نے موقف اختیار کیا کہ ریاست سوات میں شریعت نافذ ہے شرعی سزائیں مقرر ہیں اور شریعت کے احکامات پرعمل بھی ہوتا ہے میں نے سوات کے امتحانی ہال میں طالب علم کو نقل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا ہے گواہ بھی موجود ہیں چونکہ محکمہ تعلیم کے قواعد وضوابط اور امتحانی ہال کے لئے وضع کردہ قوانین میں نقل کو چوری تصور کیا گیا ہے نقل کرنے والے کی وہی سزا ہوتی ہے جو سزا چور کی ہے اس لئے طالب علم ایکس وائی زی پر چوری کا مقدمہ چلاکر گواہوں کو طلب کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کا ہاتھ کاٹ دینے کے لئے حکم جاری کیا جائے۔امتحانی ہال میں پرچہ ختم ہونے سے پہلے اس واقعے کی رپورٹ والی سوات میاں عبدالحق جہانزیب کو دی گئی۔ان کے سامنے اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا والی صاحب کو تعجب بھی ہوا حیرت بھی ہوئی اُنہوں نے ہال کے سپرنٹنڈنٹ کو بلانے کا حکم دیا۔ہرکارہ آیاتو پریشان خٹک نے والی صاحب کو خط لکھ کرامتحان کے ہال کوچھوڑ کرشاہی دربار میں حاضر ہونے سے معذرت کا اظہار کیا۔اس خط نے والی صاحب کے دل میں پروفیسر صاحب سے ملنے کا اشتیاق پیدا کیا والی صاحب نے خط کے جواب میں پروفیسر صاحب سے درخواست کی کہ آج شام کے لئے میری دعوت قبول کریں اور ”نان شیراز‘ میں شریک ہوکر میری عزت افزائی کریں پریشان صاحب نے لکھا کہ میں اکیلا نہیں ہوں میرے ہمراہ امتحانی ہال کا پورا عملہ ہے۔والی صاحب مزیدمتاثر ہوئے اور لکھا کہ میری دعوت آپ کے عملے کے لئے بھی ہے رات کھانے پرجو گفتگو ہوئی اس میں پریشان خٹک نے والی صاحب کو قائل کیا کہ نقل بدترین چوری ہے جو ایک نسل کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے والی صاحب کے مشیر سیف الملوک صدیقی خودبھی دانشور تھے شاعر تھے”زہ انتظار کوم ستادسترگو،ولے پنہ شوے تہ زمادسترگو“ انہی کی غزل ہے۔مشیر صاحب نے1973ء میں چنداخورہ کبل میں اساتذہ کے ایک گروپ کو یہ واقعہ سناکرآخیر میں کہا کہ والی صاحب پریشان خٹک کی صداقت،دیانت،جرء ت اور کردار کی بلندی کے گرویدہ ہوگئے۔

2021کا چکدرہ سوات سے زیادہ دور نہیں بلکہ سوات کے دروازے پر واقع ہے1960ء میں پریشان خٹک نے والی صاحب کو قائل کیا تھا کہ نقل بھی چوری ہے61سال بعد اخباری نمائیندے فیصل نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان کو قائل کیا ہے کہ نقل چوری ہے قابل دست اندازی پولیس ہے اور اس جرم پر بھی ڈکیتی والی ایف آئی آر ہونی چاہیئے بقول اقبال۔۔۔

وہی نامحکمی وہی دیرینہ بیماری دل کی

علاج اس کاوہی آب نشاط انگیز ہے ساقی

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button