آپ کی طرف سے ناراضگی ختم ہو چکی ہے‘‘ دوسری بار قہقہہ لگایا اور بولے ’’میں اسپتال میں ہوں‘ میری کیموتھراپی چل رہی ہے‘ آپ خواب میں آئے اور ہم بڑی دیر تک گپ شپ کرتے رہے‘ میں نے صبح اٹھ کر سوچا ناراضگیوں کا کیا فائدہ‘ ہم نے آخر مر ہی جانا ہے چناں چہ مولانا میں آپ کو پہلی فرصت میں فون کر رہا ہوں‘ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں‘ آپ جتنا جلد ہو سکے مجھے مل لیں‘‘ میں دہل گیا اور میں فوراً ان کی طرف روانہ ہو گیا‘ اسپتال میں وی آئی پی وارڈ میں پہنچا تو وہ کمرے سے غائب تھے‘ میں نے پریشانی میں نرس سے پوچھا‘ اس نے وارڈ کے پچھلے دروازے کی طرف اشارہ کر دیا۔
میں اس دروازے سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا موصوف تھڑے پر بیٹھ کر سگریٹ پھونک رہے ہیں اور اسپتال کے مالیوں‘ ڈرائیوروں اور سویپروں کو لطیفے سنا رہے ہیں‘ میں نے انھیں حیرت سے دیکھا اور پوچھا‘ کیا آپ واقعی کیموتھراپی کرا رہے ہیں‘ انھوں نے فوراً زبان نکال کر دکھا دی‘ ان کی زبان روشنائی کی طرح نیلی تھی‘ میں بھی ان کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ گیا‘ ہم شام تک وہاں بیٹھے رہے‘ وہ اپنے والد اور دادا کے بارے میں بتاتے رہے‘ اپنے ناکام عشقوں کی داستان سناتے رہے اور میر داغ سے لے کر فیض تک اساتذہ کا کلام سناتے رہے‘ میں نے اٹھتے ہوئے ان سے پوچھا ’’کیموتھراپی کے دوران سگریٹ نوشی مضر نہیں ہوتی‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’جب مرنا ہی ہے تو حسرتیں تو پوری کر لیں۔‘‘
قاسمی صاحب نے بڑے پیار سے پوچھا ’’جاوید تم دنیا میں سب سے زیادہ کس سے پیار کرتے ہو‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’آپ سے‘‘ قاسمی صاحب نے زور سے قہقہہ لگایا اور پھر کہا ’’چل فیر تینوں میری قسم‘ تو سچ سچ دس توں زندگی وچ کدی سگریٹ پیتااے (تمہیں میری قسم‘ تم سچ سچ بتاؤ کیا تم نے زندگی میں کبھی سگریٹ پیا) میں نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا‘ قاسمی صاحب نے مشاہد صاحب کی طرف دیکھا اور پنجابی میں کہا ’’میں ٹھیک کہہ رہا تھا ناں یہ اصلی کنوارہ ہے‘ ابھی اس کی نتھ نہیں اتری‘‘ میں نے ہنس کر عرض کیا ’’سر سگریٹ کا کنوارے پن کے ساتھ کیا تعلق ہے۔۔
آپ حکم کریں میں نے کرنا کیا ہے؟ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر قاسمی صاحب بولے ’’ہمارے سگریٹ ختم ہو گئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں ہمیں کوئی ایسا شخص سگریٹ لا کر دے جو سگریٹ نہ پیتا ہو‘‘ میرا قہقہہ نکل گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ واہیات سی شرط نہیں؟‘‘ قاسمی صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’ سیدھی بات ہے ہم اگلی ڈبی کسی تیسرے شخص کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہتے‘‘ میں نے اپنی ڈائری مشاہد صاحب کو پکڑائی اور سگریٹ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ یہ ایک مشکل کام تھا‘ لندن میں سگریٹ ہر جگہ نہیں ملتے‘ مجھے پیدل آکسفورڈ اسٹریٹ جانا پڑا اور پھر چار کلو میٹر کا چکر لگا کر واپس آیا۔
مجھے اس وقت پتا چلا لندن میں سگریٹ تلاش کرنے کے لیے واقعی انسان کا کنوارہ اور فٹ ہونا ضروری ہے‘ میں ہوٹل پہنچا تو میں نے دیکھا وہ دونوں فٹ پاتھ پر گملوں کے کنارے بیٹھ کر سگریٹ پی رہے ہیں‘ میں نے انھیں سگریٹ پکڑائی اور پوچھا ’’آپ کو یہ رسد کہاں سے مل گئی‘‘ قاسمی صاحب نے پورا منہ کھول کر قہقہہ لگایا اور کہا’’ ہمارے پاس آدھی ڈبی موجود تھی‘ ہم نے تمہیں اگلے محاذ کے بارود کے بندوبست کے لیے بھیجا تھا‘‘اس کے ساتھ ہی مشاہد اللہ نے ایک خوف ناک شیطانی قہقہہ لگایا۔
یہ میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی‘ یہ شروع میں شرمائے شرمائے رہتے تھے‘ ان کے ساتھ ریاض نام کے ایک صاحب تھے‘ یہ ان کے دیرینہ دوست تھے اور لندن میں دیسی کھانوں کا کوئی ریستوران چلاتے تھے‘ مشاہد صاحب ہمیں دو تین مرتبہ ان کے ریستوران پر لے کر گئے‘ ان صاحب نے بڑے فخر سے بتایا‘ میں میاں صاحب کے آفس میں تین سال سے کھانا بھیج رہا ہوں‘ مشاہد صاحب ہلکے سے مسکرائے اور میز کے نیچے سے انھیں ٹھڈا مارا‘ میں نے یہ ٹھڈا دیکھ لیا اور ہنس کر کہا ’’جانے دیں جو کھلاتا ہے وہ بتاتا بھی ہے‘‘ مشاہد صاحب کے ساتھ اس کے بعد دوستی کا تعلق بن گیا‘ میں نے زندگی میں ان سے زیادہ کسی شخص میں اتنا شعری ذوق نہیں دیکھا‘ انھیں بلامبالغہ ہزاروں شعر زبانی یاد تھے اور یہ موقع محل کے مطابق شعر سناتے چلے جاتے تھے۔
یہ 2009 میں سینیٹر منتخب ہو گئے‘ سینیٹ میں ان کی تقریریں یادگار ہوتی تھیں‘ مشاہد صاحب اس زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تھے چناں چہ پیپلزپارٹی کے لوگ ان کی شعری توپ کا ہدف ہوتے تھے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی 2013 میں حکومت آ گئی اور یہ موسمیاتی تبدیلی کے وزیربن گئے‘ 2015 میں انھوں نے بی بی سی کو انٹرویو دیا اور اس انٹرویو میں انھوں نے الزام لگایا پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے پیچھے آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل ظہیر الاسلام عباسی تھے اور وزیراعظم نے جنرل راحیل شریف کو جنرل عباسی کی ایک فون کال سنائی تھی۔
یہ انٹرویو بم کی طرح پھٹا‘ وزیراعظم پر دباؤ آیا‘ مشاہد اللہ خان اس وقت کسی کانفرنس کے سلسلے میں مالدیپ گئے ہوئے تھے‘ یہ واش روم میں تھے‘ انھیں واش روم میں فون پکڑایا گیا اور اس فون پر انھیں واپس آنے اور مستعفی ہونے کا حکم دے دیا گیا‘ یہ واپس آئے اور وزارت سے مستعفی ہو گئے‘ میں نے کالم میں واش روم اور ٹیلی فون کا واقعہ لکھ دیا‘ یہ مجھ سے خفا ہو گئے‘ ان کا کہنا تھا یہ واقعہ سو فیصد جھوٹ ہے‘ یہ مجھ سے سورس معلوم کرنا چاہتے تھے‘ میں ڈٹ گیا اور یوں یہ ناراض ہو گئے‘ یہ ناراضگی اس دن ختم ہوئی جس دن یہ کیموتھراپی کے لیے اسپتال تھے اور صبح انھوں نے مجھے فون کیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ ن میں مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید صرف دو ایسے لوگ ہیں جن کی میاں نواز شریف سے وفاداری کی قسم کھائی جا سکتی ہے‘ یہ دونوں نواز شریف کو ہر چیز سے زیادہ مقدم رکھتے ہیں لیکن میاں صاحب نے دھرنوں کے بعد دونوں کی قربانی دے دی‘ مشاہد اللہ خان سے15 اگست 2015 کو استعفیٰ لے لیا گیا اور پرویز رشید کو ڈان لیکس کی بلی چڑھا دیا گیا جب کہ ن لیگ کا ہر شخص جانتا تھا ڈان لیکس میں پرویز رشید کا رتی برابر ہاتھ نہیں تھا اور مشاہد اللہ خان کا بی بی سی کو انٹرویو بھی پارٹی پالیسی تھی۔
پارٹی یہ انکشاف کرنا چاہتی تھی لیکن پارٹی کا کوئی عہدیدار یہ گھنٹی اپنے گلے میں باندھنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ مشاہد اللہ سے پہلے ن لیگ کے ایک سینئر وفاقی وزیر نے ایک ٹاک شو میں بڑی تفصیل سے یہ سارا واقعہ بیان کیا تھا‘ وہ شو ریکارڈڈ تھا‘ وفاقی وزیر نے ریکارڈنگ کے بعد یہ حصہ بڑی مشکل سے کٹوایا تھا‘ انٹرویو کا وہ حصہ اگر چل جاتا تو مشاہداللہ کی جگہ کوئی اور ہوتا لیکن وہ صاحب بچ گئے اور مشاہداللہ بلی چڑھ گئے۔
اللہ کی اس دنیا میں ہر زندہ مردہ شے نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘ ہم مٹی کی پیداوار ہیں اور ہم نے بالآخر اپنی پیدائش کا مقصد پورا کر کے اپنی مٹی کا رزق بن جانا ہے لیکن مشاہداللہ خان جیسے لوگ جانے کے لیے نہیں آتے‘ یہ ہمیشہ رہنے کے لیے آتے ہیں‘ یہ لوگ عادت کی طرح ہوتے ہیں‘ یہ لوگ چلے جاتے ہیں لیکن یہ اپنی عادتیں چھوڑ جاتے ہیں اور یہ عادتیں آنے والے لوگوں کے مزاج میں زندہ رہتی ہیں‘ مشاہد اللہ خان خوشبو تھے بلکہ رکیے یہ خوشبو کی عادت تھے او ر یہ عادت ہمیشہ زندہ رہے گی‘یہ کبھی نہیںمرے گی۔