تازہ ترینمضامین

اگر نو سال تک کرسی برقرار رکھنی ہے تومیری ایک بات پلے سے باندھ لیں خان صاحب ! ۔.(تحریر:ڈاکٹرعبدالقدیر خان)

  اگر آپ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں (یعنی ﷲ ربّ العزت نے ان پر مہر نا لگا دی ہو) تو آپ بہت سی نصیحت آموز چیزیں دیکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیراعظم کے عوام سے ٹیلیفون پر سوال جواب سنے۔ ایک پٹھان نوجوان نے کمال کردیا اگر اس کی گفتگو کی فلم بنائی جائے تو چھوٹی فلموں میں اس کو آسکر ایوارڈ مل جائے۔ وزیراعظم نے فرمایا ہےکہ پانچ سال حکومت کرنے کے لئے بہت کم وقت ہے، انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ مغربی دنیا، جاپان وغیرہ میں اہل

لوگ چار سال میں اپنے نقش پا چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر آپ کو وقت کی کمی کا احساس ہورہا ہے تو آئندہ بجٹ کے بعد اسمبلی تحلیل کردیں اور فوراً دوبارہ الیکشن کروا لیں 5سال اور مل جائیں گے، اس طرح تقریباً 9سال میں شاید آپ کچھ کارکردگی دکھا سکیں۔ جرمنی کی مرکل 16سال بعد خود چھوڑ کر جارہی ہیں۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ انہیں حکومت کرنے کا تجربہ نہ تھا۔ حکومت بنانے والے وزیراعظم ناتجربہ کار ہوتے ہیں مگر وہ ماہرین کی شیڈو کیبنیٹ بنا لیتے ہیں، جن کے پاس پلان ہوتا ہے، اگر ان کی پارٹی جیتتی ہے تو تجربہ کار لوگ فوراً اپنے فرائض سنبھال لیتے ہیں۔ انہیں اپنی وزارت کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے وزیراعظم کی کابینہ میں اکثریت کو حکومت چلانے کا تجربہ نہیں ہے۔میں نے موجودہ حکومت یعنی عمران خان کو ایک اعلیٰ یونیورسٹی بنانے کی پیشکش کی تھی، پوری فیزی بلیٹی رپورٹ بھیج دی تھی اس کا جواب نہیں آیا۔ یہاں بہانے بنانے والے لوگوں کی باتیں زیادہ پُراثر ہیں۔ کاغذی دعوئوں اور عملی کارکردگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ GIKIہم نےدو سال میں بنایا تھا، 15غیرملکی اعلیٰ پروفیسر اور ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، تجربہ کار اساتذہ لگائے تھے، لیبارٹریز و عمارتیں اور سہولتیں میں نے خود بنوائی تھیں، کورسز میرے KRLکے رفقائے کار اور باہر کے پروفیسروں کی شرکت سے بنائے گئے تھے۔ تعلیم بہت ہی مشکل کام ہے اور مغربی ممالک میں اساتذہ کی تنخواہیں وزیروں کی تنخواہوں سے زیادہ ہوتی ہیں جبکہ یہاں اعلیٰ، بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسروں کو تمغۂ امتیاز بمشکل ملتا ہے۔ انسان کس کس چیز پر ماتم کرے؟ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button