تازہ ترینمضامین

ہما را کل اور آج …. تحریر: اقبال حیات

ایک معمر خاتون کا ہاتھ تھامے ایک راہگیر شخص ایک وسیع میدا ن سے نکل کر بکھرنے والے لوگوں سے اجتماع کے مقاصد کے بارے میں دریافت کرنے پر انہیں بتایا جاتا ہے کہ ہم سخت خشک سالی کے کرب میں مبتلا ہیں اور آئے دن نماز استسقاء ادا کرتے ہیں مگر بارش کا قطرہ زمین کی طرف نہیں آتا۔ راہگیر لوگوں کی مایوسی دیکھ کر انہیں ناامیدی سے اجتناب کرنے اور اپنی طرف سے دعا کرنے تک کھڑے انتظار کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اور اپنے ہمراہی خاتوں کا ہاتھ تھامے کچھ فاصلے پر جاکر ان کے آنچل کا کونہ پکڑ کر آسمان کی طرف منہ کرکے گریان ہوتے ہیں۔ چند منٹ گزرنے کے بعد ہاتھ کھلے ہی تھے کہ آسمان بادلوں سے بھرنے کے بعد باران رحمت شروع ہوتی ہے۔ وہان پر کھڑے لوگ فرطہ مسرت سے دوڑ کر اس شخص سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دعا کی نوعیت کے بارے میں دریافت کرنے پر وہ راہگیر تبسم کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ میں کوئی ولی یا بزرگ نہیں ۔ میرا ہمراہی میری والدہ محترمہ ہے۔ عقل وخرو کے حدود میں داخل ہونے کے بعد تاہنوز ان کے سر سے دوپٹہ سرکتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ابھی تک میں اپنی والدہ کے گیسووں کے رنگ وروپ سے بھی ناواقف ہوں۔ان کے دوپٹے کا سرا پکڑ کر ہلاتے ہوئے میں نے رب کائنات سے اپنی والدہ کے اس عمل کے تقدس کا واسطہ دےکر دعا مانگی جو منظؤر ہوئی۔

 اس واقعے کے تناظر میں جب ہم چترال کے باسی لوٹ کر نصف صدی قبل کی حد تک اپنی معاشرتی اقدار کا جائزہ لیتے ہیں۔تو ان اوصاف کے حامل چار دیواری کے اندر زندگی گزارنے والی ہماری خواتین کے ہاتھوں پکی روکھی سوکھی “خدائی ” کے نام پر مسجد میں لے جایا کرتا تھے۔اور ایک ساتھ ملکر کھانے کے بعد بارش روکھنے یا برسنے کی ضرورت کے لئے ہاتھ اٹھانے پر رب کائنات کی طرف سے اجابت استقبال کے لئے آئی تھی۔ مگر آج وہ دنیا ہی نہیں ہماری قابل فخر معاشرتی  اقدار قصہ پارینہ بن گئیں۔ہمارے گھروں کے اندر کے حالات اور بازاروں میں روان دوان زندگی کو اسلام کی کسوٹی میں پرکھ  کر دیکھا جائے تو اس مقدس لفظ  کی تضحیک کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ہر کسی پر مادہ پرستی کا بھوت سوار ہے۔ شرم وحیا کی صورت میں ہماری معاشرتی زندگی کے ممتاز،منفرد اور قابل فخر وصف سربازار نیلام ہے۔اپنی خواتین کو نیم برہنہ حالت میں للچائی ہوئی نظروں کے حامل نامحرموں سے بات کرتی ہوئی دیکھ کر بھی ہماری غیرت انگڑائی نہیں لیتی۔ یوں پردے کی صورت میں اپنے عظیم پرودگار کے پسندیدہ عمل کی آج ہم نے جو  درگھت بنائی ہے وہ ہم پر عیان ہے مگردنیا کے تقاضوں سے نہیں نکل سکتے۔ جس کا خمیازہ مختلف صورتوں میں بھگتنا یقینی امر ہے۔
Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button