جمعیت علما اسلام کے سینٸر رہنما امام سیاست کے لقب سے ملقب مولانا محمد خان شیرانی اور الفاظ و محاورات کو برجستہ استعمال کرکے سیاسی موشگافیوں کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت سے مالامال شخصیت حافظ حسین احمد کو جمعیت علما اسلام کی پالیسیوں سے انحراف کرنے کی پاداش میں انضباطی کمیٹی کی سفارش پر مرکزی مجلس عاملہ نے مہر تصدیق ثبت کرتے ہوے جمعیت علما کی بنیادی رکنیت سے خارج کردیا ہے اور ساتھ ہی بحالی کا اپشن بشرط معافی اور اپنے طرز عمل کی وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔سیاسی دنیا میں افراد و شخصیات مختلف اوقات میں مختلف جماعتوں کیساتھ وابستگی رکھتے اٸے ہیں اور یہ بھی بکثرت ہوتا ایا ہے کہ پارٹی سربراہ نے پارٹی کے ساتھ وفاداری نہ نبھانے پارٹی مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے اور پارٹی کے اصول و ضوابط پر عمل نہ کرنے یا پارثی پالیسیوں کی خلاف ورزی پر کٸی ہیوی ویٹ افراد کو بھی پارٹیوں سے علحیدہ کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور سیاسی لوگ اس تطہیری عمل سے تعبیر کرتے ہیں۔لیکن مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد چونکہ سیاسی حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نمایان پوزیشن کے حامل ذی استعداد اور رموز سیاست اور سیاسی نشیب و فراز سے بخوبی اگاہی رکھنے والوں میں سے ہیں یہی وجہ ہے کہ سوشل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں انہی کے تذکرے ہیں۔انہیں کیوں نکالا گیا یہ جماعت کا خالص اندرونی معاملہ ہے۔اسے بھی انکار ممکن نہیں کہ باھمی افہام و تفہیم اور عذر و معذرت کے بعد شاید مذکورہ حضرات ایک بار پھر جمعیت کا حصہ بنیں ۔اسوجہ سے ان دو حضرات کے حوالے سے محتاط طرز عمل کی ضرورت ہے اور اگر حصہ نہ بھی بنیں تب بھی زنان و بیان اور قلم کو ھولا رکھنا چاہیٸے۔انکے بارے میں کچھ کہنے یا لکھنے سے پہلے انکی سابقہ سیاسی اور ملی خدمات کو مد نظر رکھنا چاہیٸے کہ انکی عمر کا اکثر حصہ جمعیت کی خدمت سے عبارت ہے۔اگر انکا عمل انحراف سیاسی لحاظ سے ناپسندیدہ اور جمعیت کے کاز کو نقصان پہنچانے کا باعث تھا تو مرکزی عاملہ نے اپنا فیصلہ بنیادی رکنیت سے اخراج کی صورت میں سنا دیا ہے ۔اب فیصلہ انے کے بعد انکے بارے میں نازیبا اور نا مناسب کلمات کہنا اور انکے سابقہ خدمات پر پانی پھیرنا شرعی اور اخلاقی لحاظ سے کسی بھی طور درست نہیں ۔مانا کہ وہ غلط تھے تو انکو غلطی کی سزا مل چکی ہے ۔جبہ و دستار کی فضیلت یوں سر بازار رسوا کرنا کسی کو گالی دینا یا کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا ایک عام ادمی کو بھی ذیب نہیں دیتا چہ جاٸیکہ ایک عالم، عالم تو کجا ایک ورکر کو مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرتے دیکھ کر دل خون کے انسو روتا ہے انکو جواب دینا یا نامناسب کلمات کہنا ہم جیسوں کیلٸے تو حرام کے زمرے میں اتا ہے ہاں البتہ انکے پاٸے کا کوٸی عالم دین اور سیاستدان انکے طرز عمل کو چیلینج کرتے ہوے مدلل انداز میں رد کرے تو کوٸی مضاٸقہ نہیں ہم جیسوں کیلٸے سکوت ہی بہتر رہے گا۔اگر ہم شیرانی جیسے معقولات و منقولات کے ماہر علوم قرانی کے بحر ذخار اور درجہ اجتہاد پر فاٸز شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ ان سے اجتھادی غلطی ہو چکی ہے اور اسے رجوع بھی ممکن ہے۔انکی زبان و بیان کی لغزش کا مواخذہ کبار علما ہی کریں گے۔بحرحال جمعیت کے پرجوش اور جذباتی کارکنوں کی نیک نیتی یا خلوص پر ہمیں شک نہیں لیکن التجا یہی کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں جذباتی کمنٹس سے پرہیز بہتر رہے گا۔انہی کے حوالے سے نہیں بلکہ کسی بھی پارٹی سربراہ کے بارے میں جذبات کی رٶ میں بہ کر نامناسب کلمات سے اجتناب کریں کیونکہ ہر ورکر اپنے پارٹی سربراہ سے محبت و عقیدت رکھتا ہے اور اپنے قاٸد کے بارے میں نامناسب کلمات برداشت نہیں کرسکتاہٕے ۔اٹھے گا جو اینٹ اب کوٸی تو پھتر ہی اسکا جواب ہوگا یہ فارمولہ ہر پارٹی ورکر استعمال کرتا ہے اور کرتا ہی رہےگا۔خاص کر میڈیا کے اس دور میں جب علما ہی ایک دوسرے کی جبہ ودستار تارتار کرنے کی کوشش کریں گے تو عوام الناس کا اعتبار و اعتماد ہی انپر سے اٹھ جاٸے گا اور پھر مانگتے پھروگے ہم سے غرور اپنا کے مصداق بننا پڑے گا۔
Facebook Comments