تازہ ترینمضامین

اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اورمراعات……ڈاکٹر دوست محمد

چند دن قبل صوبائی اسمبلی کے اپوزیشن کے اراکین وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے احتجاج کر رہے تھے، خبر کی تفصیل پڑھی تو پتہ چلا کہ یہ صاحبان ریٹائرمنٹ کے بعد قومی اسمبلی کے اراکین اور سینیٹرز کی طرح بلیو پاسپورٹ، ائیرپورٹوں پر وی آئی پی لائونجز میں قیام، ملک کے گیسٹ ہائوسز میں(مفت)قیام اور دیگر مقامات پر پھوں پھاں کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس خبر پر مجھے خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی، خوشی اس لئے ہوئی کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد اس ملک کو جاگیرداروں، وڈیروں، بیوروکریٹوں اور وزرائ، امراء اور انہی ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں نے ہمیشہ سے مال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹا اور کھایا ہے، اس لئے اگر اب صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی قومی اسمبلی کے اراکین کو حاصل مراعات مانگ رہے ہیں تو یہ اُن کا ”حق” بنتا ہے لہٰذا بہتی گنگا میں وہ بھی ہاتھ بلکہ پاؤں دھو لیں تو کونسا آسمان گر پڑے گا لیکن پریشانی اس بات پر ہوئی کہ یہ ملک بابائے قوم کی رہنمائی میں عوام نے اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں سماجی انصاف ہوگا اور عوام کے منتخب نمائندے عوام کے خدمت گار بن کر اسمبلیوں میں قانون سازی کر کے ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت اور عوام کی دہلیز پر ان کو بنیادی سہولیات پہنچانے کیلئے دن رات ایک کریںگے۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ وزیر (منسٹر) عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بوجھ اُٹھانے والا ہے یعنی وزیر قوم کے مسائل اور دکھ وپریشانیوں کو ختم کرنے کا بوجھ اُٹھائے پھرے گا، اس لئے قابل احترام ٹھہرے گا، جیسے حضرت عمر فاروق رات کو مدینہ منورہ اور اُس کے مفاضات میں گشت کر کے لوگوں کے دکھوں کا بوجھ اُٹھائے پھرتے تھے لیکن یہاں تو کیا اراکین اسمبلی کیا وزراء وامرائ، سب عوام کے ناتواں کندھوں پر سوار ہو کر اُن کیلئے گزشتہ ساٹھ برسوں سے بوجھ بن کر سوار رہے ہیں۔ اپنے اقتدار اور رکن اسمبلی یا وزیر ہونے کے دوران جو مزے لوٹ لیتے ہیں وہ اتنے لزیز لطف انگیز اور دلکش وپرمسرت ہوتے ہیں کہ اس سیٹ سے اُترنے کے بعد بھی بھولنے نہیں پاتے۔ اور اسی وجہ سے ممبر اسمبلی بننے کیلئے لڑائی مارکٹائی اور لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے سے لیکر ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ورنہ اگر صحیح معنوں میں یہ لوگ قوم اور عوام کا بوجھ اُٹھانے کیلئے منتخب ہوتے تو بہت کم لوگ اس ”شہادت گہ اُلفت” میں قدم رکھنے کی جرأت وجسارت کرتے۔ حضرت عمر فاروق اس لئے تو خلیفہ بننے کے بعد فرماتے پائے گئے ”کاش میں ایک تنکا ہوتا تاکہ آخرت میں عوام کے حقوق کے بارے میں جواب دہی سے بچ پاتا” یہاں چونکہ اس قسم کی نہ کوئی بازپرس ہے اور نہ ہی فکرآخرت لہٰذا صرف اور صرف دنیاوی مراعات وآسائشات کی مانگ اور طلب ہے۔ ظاہری طور پر آپس میں بہت لڑ جھگڑ کر بھی آخر فائدہ تو سب کا سانجھا ہوتا ہے نا۔ آج جو اقتدار میں ہیں، کل اپوزیشن میں ہوں گے اور جو اپوزیشن میں ہیں وہ صاحبان اقتدار ہوں گے۔ اس لئے لوٹو، خوب مزے کرو۔ اسمبلی میں کوئی پانچ سال میں پانچ منٹ بھی قانون سازی یا عوام کے حقوق پر لب کشائی بھی نہ کرے تب بھی صرف اجلاس میں تشریف آوری کے ماہانہ لاکھوں روپے اور دیگر مراعات سمیٹتے ہیں۔ یہی حال بیوروکریسی کا ہے، اقتدار میں ہو تو اسسٹنٹ کمشنرز سے لیکر کمشنر اور سیکرٹریز تک جس شاہانہ مزاج اور طور طریقوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں وہ اس ملک میں معاشرے کے کسی اور شعبے کو حاصل نہیں۔ یہ بیوروکریٹس ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ڈرائیور، شیف اور چوکیدار وغیرہ کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور مرتے دم تک یہ سہولیات اُن کو حاصل ہوتی ہیں۔ زہے نصیب، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دم قدم سے پاکستان آباد ہے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ بیوروکریٹس کو انگریز نے متعارف کرایا تھا اور ان کو سول سرونٹس کا نام دیا تھا اور اُن کے ہاں واقعی یہ عوام کے خدمتگار ہوتے ہیں لیکن ہندوستان میں جو بیوروکریٹس تھے یہاں کے غریب عوام اور سرداروں، وڈیروں اور مراعات یافتہ اشرافیہ نے اُن کے مزاج کو اتنا خراب کیا کہ یہ لوگ جب واپس برطانیہ پہنچے تو اُن کو یہ کہہ کر ریٹائر کر دیا گیا کہ آزاد قوم کیلئے ان کا مزاج مناسب نہیں رہا کیونکہ انہوں نے غلام قوم پر حکومت کی ہے خدمت نہیں، ہمارے ہاں کی جمہوریت میں نقل تو مغرب کی ہوتی ہے لیکن خدمت اور عوامیت میں اُن کے وزراء اور اراکین اسمبلی کے احساس ذمہ داری اور دیانتداری کی پیروی کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ مدینہ کی ریاست کیلئے عوام نے بہت ذوق وشوق کا اظہار کیا اور خبروں کی حد تک وی آئی پی پروٹوکولز وغیرہ کے ختم کرنے کی باتیں بھی ہوئیں لیکن سب بس باتیں ہی رہ گئیں۔ اس ملک کے عوام جس کسمپرسی کا شکار ہیں، اس کا اندازہ تب لگتا ہے جب کوئی باہر نکل کر اُن میںگھل مل کر دیکھتا اور سنتا ہے۔ پچھلے دنوں پشاور یونیورسٹی کے بارے میں انسپکشن ٹیم کی رپورٹ نظر سے گزری تو عش عش کر اُٹھا کہ واہ ان کو پی ایچ ڈی میڈیکل اور چند دیگر بے ضرر سے الاؤنسوں پر کڑی گرفت کی گئی تھی لیکن حکومت نے کبھی بیوروکریٹس اور اراکین اسمبلی اور وزراء پر بھی بات کی ہے یا کرسکتی ہے؟

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button