- عقیل عباس جعفری
- محقق و مورخ، کراچی
’مجھے پورا یقین ہے کہ شیعہ مسلم کمیونٹی کے بہترین مفاد میں یہ ہو گا کہ میرا جانشین کوئی ایسا نوجوان ہو جس کی پرورش اور تربیت حالیہ برسوں میں نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ہوئی ہو اور جو امام کے منصب کو ایک نیا رُخ دینے کا اہل ہو۔ اس وجہ سے اگرچہ وہ میرا براہ راست وارث نہیں ہے، میں اپنے پوتے کریم کو، جو میرے بیٹے علی کا بیٹا ہے، آغا خان کا خطاب استعمال کرنے کا حق دیتا ہوں اور اپنے تمام پیروکاروں کا امام اور پیر مقرر کرتا ہوں۔‘
سر سلطان محمد آغا خان سوم کی آخری وصیت میں موجود یہ الفاظ تھے جن کی بدولت سنہ 1958 میں ان کے پوتے کریم کو اپنے والد شہزادہ علی خان کے بجائے موروثی پیشوا اور اسماعیلی برادری کا روحانی سربراہ مقرر کیا گیا۔
13 دسمبر کو ان کی سالگرہ کے موقع پر شہزادہ کریم آغا خان کو نہ صرف اسماعیلی برادری بلکہ پوری دنیا بہت عقیدت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ وہ خاص طور پر اپنے فلاحی کاموں اور مفادِ عامہ کے لیے قائم کیے گئے اداروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔
لیکن 1950 کی دہائی میں یہ پوری دنیا کے لیے ایک حیرانی کی بات تھی کہ آغا خان سوم نے اپنے بیٹے کے بجائے پوتے کو جانشین مقرر کر دیا۔ عام تصور یہ تھا کہ اگر علی خان نہیں تو پھر ان کے بھائی صدرالدین کو اگلا آغا خان مقرر کیا جائے گا۔
شیعہ اثنا عشری جعفر صادق کے بعد ان کے فرزند موسیٰ کاظم اور ان کی اولاد کی امامت کے قائل ہیں جبکہ اسماعیلی مسلمان جعفر صادق کے بڑے فرزند اسماعیل بن جعفر (جن کی وفات امام جعفر صادق ؑکی زندگی میں ہو گئی تھی) کو اپنے آٹھویں امام کا درجہ دیتے ہیں اور ان کی اولاد کو سلسلہ وار اپنا امام مانتے ہیں۔
تو کیا وجہ بنی کہ سر سلطان محمد نے اپنے پوتے کو اپنے دونوں بیٹوں پر فوقیت دی؟ یہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم آغا خان خاندان کی تاریخ سے واقف ہو جائیں۔
اس مضمون کو مرتب کرنے کے لیے ہم نے دیگر تاریخی ذریعوں کے علاوہ دو اہم کتابوں سے رہنمائی حاصل کی ہے: آغا خان سوم کی اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’دی میموائرز آف آغا خان: ورلڈ اِنف اینڈ ٹائم‘ اور مہِر بوس کی ’دی آغا خانز‘، جس کا حمید اختر نے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔

سنہ 1885 میں آغا خان سوم کی تخت نشینی کا منظر
سر سلطان محمد آغا خان سوم
سر سلطان محمد اسماعیلی مسلمانوں کے 48 ویں امام ہی نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے ایک فعال رہنما بھی تھے۔ وہ دو نومبر 1877 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ اپنے والد آغا خان دوم علی شاہ کی وفات کے بعد سنہ 1885 میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 1957 میں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کا دور امامت تمام اسماعیلی اماموں سے زیادہ تھا۔ وہ سابق فاطمی سلطنت مصر میں اسوان کے مقام پر دریائے نیل کے کنارے مدفون ہیں۔
بین الاقوامی سیاست میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک تھے اور سنہ1907 سے سنہ 1913 تک اس کی صدارت پر فائز رہے تھے۔ ان ہی کی کوششوں سے ایم اے او کالج علی گڑھ کو یونیورسٹی کا درجہ ملا اور وہ اس یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر بھی رہے۔

24 نومبر 1930: گول میز کانفرنس کا ایک منظر
سنہ 1930 میں جب لندن میں گول میز کانفرنسوں کا آغاز ہوا تو سر آغا خان نے وہاں بھی برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور سنہ 1937 میں انھیں اقوامِ متحدہ کی پیشرو تنظیم لیگ آف نیشنز کی جنرل اسمبلی کا صدر بھی منتخب کیا گیا۔
سر آغا خان سوم نے چار شادیاں کی تھیں۔ ان کے سب سے بڑے فرزند کا نام مہدی تھا جو اگر زندہ رہتے تو ان کے جانشین ہوتے۔ ان کے دوسرے فرزند شہزادہ علی خان تھے جو 13 جون 1911 کو پیدا ہوئے۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’پلے بوائے‘ شہزادہ
پرنس علی خان یورپ میں اپنی کاک ٹیل پارٹیوں اور معاشقوں کی وجہ سے شہرت پاتے جا رہے تھے۔ انھیں الکوحل سے رغبت نہیں تھی نہ ہی وہ اپنے والد کی طرح کھانے کے شوقین تھے، مگر وہ اپنے مہمانوں کو ہر طرح مطمئن اور مسرور رکھنے کے فن سے آگاہ تھے۔
انھیں اپنے معاشقوں کے کھلے بندوں ہونے والے تذکروں کی پروا بھی نہیں تھی۔ وہ عیش و عشرت اور ہنگامے برپا کرنے میں مصروف اور خوش رہتے تھے اسی سبب سے ان پر پلے بوائے کا لیبل چسپاں ہو گیا تھا۔
شادی کے معاملات میں سر آغا خان سوم بھی خاصے معروف تھے مگر علی خان ان سے بھی بازی لے گئے تھے۔ اگرچہ آغا خان سوم کی زندگی میں آنے والی خواتین کا خاندانی لحاظ سے برتر ہونا ضروری نہیں تھا مگر علی خان سے تعلق رکھنے والی بیشتر عورتیں مغربی دنیا کی منتخب حسینائیں تھیں اور اپنے اپنے شعبوں میں شہرت رکھتی تھیں۔
سنہ 1936 میں 21 سال کی عمر میں شہزادہ علی خان کی شادی جون باربرا یاردے بلر نامی ایک انگریز خاتون سے ہوئی جو عمر میں ان سے تین سال بڑی تھیں۔
اس سے قبل جون کی تھامس لوئل گِنس نامی شخص سے شادی ہوئی تھی جن کا خاندان گِنس کے نام سے شراب بنانی والی ایک بہت بڑی کمپنی کا مالک تھا۔
اس شادی کے نتیجے میں ان کے دو بیٹے کریم اور امین پیدا ہوئے مگر پرنس علی خان ایک ڈال پر ٹھکانہ بنانے والے کہاں تھے۔ جلد ہی ان کے اور جون باربرا یاردے کے درمیان اختلافات رونما ہونے لگے۔
پہلا اختلاف تو یہی ہوا کہ جون نے کریم اور امین کو سوئٹزر لینڈ میں اعلیٰ تعلیم دلانا چاہی اور اس مقصد کے لیے جس سکول میں دونوں بیٹوں کو داخل کروایا گیا وہاں تکبر، روپے پیسے کی برتری اور اعلیٰ سماجی حیثیت کو بنیادی مقام حاصل تھا۔ اس سکول کے طالب علموں میں شاہ ایران، اٹلی کے معزول بادشاہ کے صاحبزادے اور متنازع خطاب رکھنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کے بچے شامل تھے۔
علی خان اور جون یاردے کی شادی سنہ 1949 تک جاری رہی اور طلاق کے وقت شہزادہ علی نے جون کو 15 لاکھ پاؤنڈ کی رقم ادا کی۔ جون نے بھی ایک اچھی بیوی کا کردار نبھایا اور طلاق کے معاملے میں آخر تک تعاون پر آمادہ رہیں۔ انھوں نے خود اس طلاق کی بڑی وجہ علی کی عدم توجہی کو قرار دیا۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
حقیقی زندگی میں شہزادی بننے والی پہلی ہالی وڈ اداکارہ
علی خان کی زندگی میں آنے والی جس حسینہ کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی وہ ہالی وڈ کی اداکارہ اور 1940 کی دہائی میں بڑی سکرین پر راج کرنے والی ریٹا ہیورتھ تھیں، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
شہزادہ علی نے ریٹا ہیورتھ کو پہلی مرتبہ فلم ’بلڈ اینڈ سینڈ‘ میں دیکھا تھا اور وہیں سے وہ ریٹا کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ ان دنوں ریٹا مشہور ہالی وڈ اداکار اور ہدایتکار اورسن ویلیز کی بیوی تھیں اور اس شادی سے ان کی ایک بیٹی بھی تھی۔
چند ماہ بعد جب کان فلم فیسٹیول میں علی خان اور ریٹا کی پہلی ملاقات ہوئی تو ریٹا بھی ان کے عشق میں گرفتار ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور بہت جلد اپنے شوہر سے طلاق حاصل کر لی۔
علی خان اور ریٹا ہیورتھ کو دنیا بھر میں اخبارات کی توجہ کا مرکز بن گئے اور وہ جہاں جاتے، پاپا رازی فوٹو گرافر ان کا پیچھا کرتے اور پریس رپورٹرز ایسی خبریں تلاش کرتے جسے مصالحہ لگا کر وہ اپنے قارئین کے سامنے پیش کر سکیں۔ اخبارات نے شہزادہ علی کو ’پرنس چارمنگ‘ اور ریٹا ہیورتھ کو ’سنڈریلا‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اس صورتحال میں آغا خان سوم نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہو ریٹا سے شادی کر لیں تاکہ ان کی نجی زندگی، جو مسلسل سکینڈلز کا شکار تھی، پرسکون ہو سکے۔ آغا خان نے یہ بات اخباری نمائندوں کے سامنے بھی کی، انھوں نے ریٹا کی بہت تعریف کی اور ان کو ایک انتہائی دلکش خاتون قرار دیتے ہوئے اخبارات سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو غیر ضروری طور پر اچھالنے سے گریز کریں۔
آغا خان سوم نے اخبار نویسوں سے یہاں تک کہا کہ برطانیہ میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ طلاقیں ہوتی ہیں مگر ہر شخص میرے ہی بیٹے کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔
علی خان نے والد کے مشورے پر عمل کیا اور 27 مئی 1949 کو ریٹا ہیورتھ سے بہت دھوم دھام سے شادی کی۔ اس تقریب کو پیرس کی مسجد کے امام نے بیسویں صدی کی اہم ترین اسلامی شادی قرار دیا۔
شادی کے وقت ریٹا نے ہیرے کی 32 قیراط وزنی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی اور ان ہاتھ کے کنگن اور بالیاں بھی ہیروں کی تھیں۔ ان کے بالوں میں بھی ہیرے کا جڑائو کنگھا آویزاں تھا۔ علی خان بھی زرد رنگ کا ڈبل بریسٹ سوٹ پہنے بہت حسین لگ رہے تھے۔ اس شادی میں مہمانوں کو شیمپین کی چھ سو بوتلیں اور ایک سو بیس پاؤنڈ وزنی کیک پیش کیا گیا۔
اس شادی کے نتیجے میں شہزادے کے ہاں ایک بیٹی یاسمین پیدا ہوئی۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
ریٹا اس وقت بڑی سکرین کی دیوی تصور کی جاتی تھیں لیکن انھیں یہ جان کر بہت حیرانی ہوئی کہ علی خان کے پیروکار انھیں بھی ایک دیوتا کا درجہ دیتے تھے۔ اگرچہ ریٹا اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھنا چاہتی تھیں مگر علی خان اور ان کے لاکھوں پیروکار ذہنی طور پر اس بات کے لیے آمادہ نہ تھے۔
ریٹا کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک ایسی دنیا کا حصہ بن چکی ہے جہاں انھیں دیوی کا درجہ تو دیا جا سکتا ہے مگر ایک عام عورت کا نہیں۔ یہ بات بھی ان سے چھپی نہ رہی کہ علی خان ابھی امام نہیں بنے اور ان کے بعد محض اتنی ہی دولت ہے جتنی انھیں اپنے والد کی طرف سے ملی ہوئی ہے۔
ریٹا نے پھر علی خان سے طلاق حاصل کرنے کی کوششیں شروع کیں اور ایک شب، جب علی خان مصر اور ان کے والد ہندوستان میں تھے، وہ اپنی بیٹیوں ریبیکا اور یاسمین کے ہمراہ پیرس سے نکل کر امریکہ پہنچ گئیں۔
علی خان ریٹا کو منانے امریکہ پہنچے اور ابتدا میں دنوں کے تعلقات بحال ہونے کے آثار نظر آنے لگے تاہم ریٹا اداکاری کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوئیں اور سنہ 1953 میں یہ شادی طلاق پر ختم ہوئی۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
شہزادے کا صدمہ اور پاکستان کے لیے خدمات
علی خان اور ریٹا ہیورتھ کی طلاق کے بعد بھی شہزادے کے معاشقوں کی داستانیں منظر عام پر آتی رہیں۔ اسی زمانے میں خبر آئی کہ سر آغا خان علی کے بجائے اپنے چھوٹے بیٹے صدرالدین کو اپنا جانشین بنانا چاہتے ہیں، مگر صدرالدین کی شخصیت بھی علی خان سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔
25 مئی 1955 کو سر آغا خان سوم نے اپنی وصیت تیار کی جس کی توثیق 18 جون 1957 کو کی گئی۔ یہ وصیت خفیہ رکھی گئی اور سر آغا خان کی وفات کے اگلے روز 12 جولائی 1957 کو کھولی گئی۔
وصیت میں لکھا تھا کہ جانشین کا انتخاب امام کا حق ہے اور وہ اپنے وارثوں میں سے کسی کو بھی چننے کا قطعی اور ناقابل چیلنج حق رکھتے ہیں۔ اسی وصیت میں آغا خان سوم نے اپنے پوتے کریم کو جانشین مقرر کیا اور ان کے تمام پیروکاروں نے ان کی خواہش کی پاسداری کی اور شہزادہ کریم کو اپنا امام تسلیم کر لیا۔
اُدھر علی خان کے لیے دنیا بدل چکی تھی۔ جانشینی سے محرومی ان کے لیے شدید صدمے کا باعث تھی اور انھیں کبھی یہ گمان بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کے والد انھیں اپنا جانشین نامزد نہیں کریں گے۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
تاہم انھوں نے بہت جلد اپنے آپ کو سنبھالا اور نومبر 1957 میں انھوں نے پاکستان کے صدر اسکندر مرزا سے ملاقات کی، جنھوں نے علی خان کو اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے کے طور پر خدمات سر انجام دینے کی پیشکش کی۔ اس ذمہ داری کا رسمی اعلان چھ فروری 1958 کو کراچی میں شہزادہ کریم آغا خان کی رسم تاج پوشی کی تقریب کے دو ہفتے بعد ہوا۔
ابتدا میں پاکستانی اخبارات نے اس فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ علی خان کی اس منصب پر تقرری نے اقوام متحدہ جیسے ادارے میں پاکستان کے مفادات کو بےحد فائدہ پہنچایا۔
آخر شہزادہ علی ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت تھے اور دنیا بھر کے مدبرین ان کی بات توجہ سے سنتے تھے۔ ستمبر 1959 میں شہزادہ علی خان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مطابق الجزائر کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی۔ ان کے اس موقف سے فرانس، جہاں کے وہ عملاً شہری تھے، سخت ناراض ہوا۔
کچھ عرصہ بعد حکومت پاکستان نے پرنس علی خان کو ارجنٹینا میں پاکستان کا سفیر نامزد کیا مگر اس سے قبل کہ وہ اپنا یہ منصب سنبھالتے، وہ 12 مئی 1960 کو پیرس میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
آغا خان چہارم اور فلاحی خدمات
آغا خان سوم کی وفات کے بعد دنیا بھر میں شہزادہ کریم کی تخت نشینی کی رسومات شروع ہوئیں اور 23 جنوری 1958 کو کراچی میں بھی پرنس کریم آغا خان کی رسم تخت نشینی ادا کی گئی۔ اس طرح شہزادہ کریم آغا خانی یا اسماعیلی مسلمانوں کے 49ویں امام بنے اور آغا خان چہارم کے لقب سے پہچانے جانے لگے۔
یہ تقریب نیشنل سٹیڈیم میں منعقد ہوئی جس میں صدر اسکندر مرزا اور وزیراعظم فیروز خان نون نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں شہزادہ کریم آغا خان کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ پیروکار بھی موجود تھے۔
کریم آغا خان 13 دسمبر1936 کو سوئٹزر لینڈ کے شہر جینوا میں پیدا ہوئے تھے۔ کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود وہ ایک ایسے حکمران ثابت ہوئے جو اپنے پیروکاروں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ان کی ہدایات حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔
سنہ 1969 میں پرنس کریم آغا خان نے ایک انگریز خاتون سے شادی کر لی جن کا اسلامی نام سلیمہ رکھا گیا۔ اس شادی کے مہمانوں میں برطانیہ کی شہزادی مارگریٹ، ہالینڈ کی شہزادی برن ہارڈ اور ایران کے شہزادے اشرف پہلوی بھی شامل تھے۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
سلیمہ سے شہزادہ کریم آغا خان کے تین بچے ہوئے: زہرہ آغا خان، رحیم آغا خان اور حسین آغا خان۔ شادی کے 26 سال بعد سنہ 1995 میں دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی۔ سنہ 1998 میں کریم آغا خان نے دوسری شادی انارا نامی خاتون سے کی جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوا، مگر چند سال بعد سنہ 2011 میں ان کی انارا سے بھی طلاق ہو گئی۔
پرنس کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کے مالی، علمی اور صحت کے امور میں مدد کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے ہیں۔ انھوں نے منصب امامت سنبھالنے کے بعد آغا خان ڈیولیپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور رفاہی کاموں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
یہ ادارہ دنیا کے تقریباً 35 ممالک میں غربت اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔ آغا خان ڈیولیپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی اداروں میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغا خان پلاننگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغا خان اکنامک سروسز اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس شامل ہیں جن کی نگرانی شہزادہ کریم آغا خان خود کرتے ہیں۔
انھوں نے فن تعمیر کے فروغ کے لیے آغا خان آرکیٹیکچر ایوارڈ کا سلسلہ بھی شروع کیا جس سے دنیا بھر میں اسلامی فن تعمیر کو بڑا فروغ ملا۔ ان کے قائم کردہ ادارے آغا خان فاؤنڈیشن نے کراچی میں ایک بڑا ہسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی قائم کی جو ملک میں اپنی طرز کی منفرد درسگاہ ہے۔ اس ہسپتال اور یونیورسٹی کا ڈیزائن امریکہ کی آرکیٹکچرل فرم پیٹی انٹرنیشنل نے تیار کیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
آغا خان فاؤنڈیشن نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1980 میں آغا خان فاؤنڈیشن نے اس خطے میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغا خان ہیلتھ سروسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی ترقی اور خوش حالی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
آغا خان چہارم کو مختلف ممالک نے متعدد اعزازات اور خطابات سے بھی سرفراز کیا: انھیں 20 ممالک نے اپنے قومی اعزازات سے نوازا ہے اور دنیا کی 19 بہترین یونیورسٹیوں نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی ہے۔
انھیں جو اعزازات عطا ہوئے ہیں ان میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ’ہز ہائی نس‘ کا خطاب اور ’نائٹ کمانڈر آف دی برٹش امپائر‘ کا اعزاز، کینیڈا کی اعزازی شہریت، امریکی اکیڈمی برائے آرٹ اینڈ سائنسز کی فیلو شپ اور حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز کا اعزاز شامل ہیں۔