تازہ ترینمضامین

داد بیداد..…یکسان نظام تعلیم…..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

مو جو دہ حکومت نے ملک میں یکسان نظام تعلیم رائج کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے وزیر اعظم عمران خا ن نے اپنے تازہ ترین بیان میں نظام تعلیم کو یکسان بنا نے پر ایک بارپھر زور دیا ہے عوام اس بات پر حیران و پریشان ہیں کہ یکسان نظام تعلیم کسطرح آئے گا کیا 35ہزار ما ہا نہ فیس لینے والے انگریزی سکول ختم ہو جا ئینگے؟ کیا ملک میں اسلا می مدارس کا پورا سسٹم لپیٹ دیا جائے گا کیا ہماری حکومت اردو میڈیم کے سر کاری سکو لوں کو بند کریگی؟ یہ ایسی باتیں ہیں جو ایک عام کسان، مزدور اور دکا ندار کے ذہن میں گونجتی ہیں ان باتوں کا تعلق نظام تعلیم کے سر سری جا ئزے کے ساتھ ہے البتہ سکولوں کے اساتذہ اور صحا فتی تنظیموں سے وابستہ پڑھے لکھے شہریوں کا رد عمل قدرے مختلف ہے یہ طبقہ نصاب ِ تعلیم کی بات کر تا ہے اور نصاب کو یکسان بنا نے پر غور کرتا ہے یہ بھی ایک معمہ اور گورکھ دھندہ ہے حکومت اکسفورڈ اور کیمبرج کے نصاب کو کس طرح پشاور بورڈ اور وفا قی بورڈ کے نصاب سے ملا کر ایک کر یگی؟ ان نصابوں کا ملا پ کیسے ہو گا؟ پھر دینی مدارس اور سر کاری سکو لوں یا پرائیویٹ سکو لوں کے نصاب کو کسطرح آپس میں ملا ئیگی یہ بھی ایک معمہ ہے اس کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یکساں نظام تعلیم کا آغاز کہاں سے ہو گا؟ جسٹس (ر) تقی عثما نی نے اپنے حا لیہ مضمون میں اس پر سیر حا صل تبصرہ کیا ہے انگریزوں کے آنے سے پہلے ہمارے ہاں یکساں نظام تعلیم رائج تھا اس میں فقہ، فلسفہ، فلکیات، معا شیات اور تاریخ سمیت اہم مضا مین پڑ ھا ئے جاتے تھے اس نظام تعلیم کی بنیا د یہ تھی کہ اسلا می تعلیمات کی رو سے عقائد، ایما نیات اور دین کا اسا سی علم فرض عین ہے جبکہ فقہ، تفسیر، حدیث وغیرہ کے علوم فرض کفایہ کا درجہ رکھتے ہیں فرض عین سب کے لئے لا زم ہے جبکہ فرض کفا یہ مخصوص شہریوں کے لئے کا فی ہے اس طرح تاریخ، معا شیات، منطق، ریا ضی فلکیات اور دیگر علوم بھی مخصوص طبقے کے لئے ہو نے چا ہیں اس اصول کے تحت اسلا می دنیا کی پہلی دانش گاہ مراکش کے شہر فاس میں 859عیسوی میں قائم ہوئی 1963ء میں اس کو یو نیورسٹیوں کی عالمی رینکنگ میں بھی جگہ ملی اس کا نا م القروئین یو نیو ر سٹی ہے گوگل میں (Al-qarawyyin) کے نام سے اس کی تاریخ دستیاب ہے یہ وہ دانش گاہ ہے جہاں ابن خلدون اور ابن رشد نے مدرس کے فرائض انجام دیئے ان کی درس گاہیں اب بھی انکے نا موں سے مو سوم ہیں اسی طرز کی دانش گاہ تیو نس میں بھی قائم ہوئی یہ تیو نس کی قدیم مسجد سے ملحق تھی جس کا قیام 703عیسوی میں ہوا تاریخ میں اس کو الز یتونہ (Al zaytuna) کے نام سے یا د کیا جا تا ہے اس دانش گاہ میں بھی یکساں نظام تعلیم رائج تھا جو فقہ، تفسیر اور حدیث سے لیکر منطق، فلکیات، ریا ضی، حیا تیات اور تاریخ تک تمام علوم کا احا طہ کرتا تھا اسی طرح 1048عیسوی میں مصر کے شہر قاہرہ میں الاز ہر کے نا م سے ایک عظیم دانش گاہ قائم ہو ئی اس کا نصاب بھی آ ج تک مثالی نصاب تسلیم کیا جا تا ہے یعنی تجوید اور قرء ت سے لیکر حدیث، تفسیر، فقہ تک اسلا می علوم پڑھا ئے جاتے ہیں فزکس، ریاضی اور کیمسٹری سے لیکر منطق اور فلسفہ تک جدید علوم کی تعلیم دی جاتی ہے جسٹس (ر) تقی عثما نی نے تینوں دانش گاہوں کا دورہ کیا ہے مضمون میں اپنے والد گرامی مفتی محمد شفیع ؒکے ملفو ظات کا بھی حوا لہ دیا ہے اگر اس مسئلے کا عصر حا ضر کے تنا ظر میں جا ئزہ لیا جائے تو بر صغیر میں ند وۃ العلماء اور جا معہ رشیدیہ ایسے ادارے ہیں جہاں جا مع المنقو لات(تفسیر، حدیث) و المعقولات(سائنس) ایک ساتھ پڑھا ئے جا تے ہیں جا معہ رشید یہ میں جو فلکیاتی رصد گاہ ہے اس کا شمار پاک نیوی کے بعد دوسرے نمبر پر ہوتا ہے یکساں نظام تعلیم پر پیش رفت کے لئے اسلا می دنیا کے ایسے تجربات سے فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے اور یہ زیا دہ مشکل کا م نہیں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈور ی کا درست سرا دریافت کر لیا جائے ڈوری کا درست سراہا تھ آجا ئے تو یکساں نظام تعلیم کا خواب شر مندہ تعبیر ہو سکتا ہے اس کا بنیا دی ڈھا نچہ تین ستو نوں پر استوار ہو گا 100فیصد طلباء اور طا لبات کے لئے بنیادی اسلا می عقائد اور ایما نیات کی تعلیم اس کے بعد 70فیصد کے لئے انسانی ہُنر کی تر بیت اور 30فیصد کے لئے کسی ایک شعبے میں تحصّص یا سپشلائزیشن کے موا قع، اس طریقے سے یکساں نظام تعلیم کا نفاذ آسان ہو گا۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button