تازہ ترینمضامین

کرونا وائرس اور ہمارا تعلیمی نظام…..حنا شہزادی

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک میں کرونا وائرس آیا ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ وائرس کم اور سیاست زیادہ ہے۔ دسمبر 2019 میں اس کا پہلا کیس اسلام آباد کے شہر میں سامنے آیا اور پھر آہستہ آہستہ یہ مزید پھیل گیا جس کے باعث مارچ 2020 میں مکمل لاک ڈاؤن ہوگیا اس سے نہ صرف کاروبار بلکہ ہمارا معاشی نظام تعلیمی نظام اور دیگر پاکستان کے نظام درہم برہم ہو گئے۔

اور اب اگر موجودہ حالات کی بات کی جائے تو ہم لوگ خسارے میں جا رہے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام پہلے ہی تہس نہس ہوا تھا اور اب رہی سہی کسر دوبارہ پوری ہو چکی ہے۔ چند دنوں سے سننے میں آ رہا تھا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی شدید قسم کی لہر دوبارہ آ گئی ہے۔ جس کی بناء پر ہمارے حکمرانوں کو تعلیمی ادارے دوبارہ بند کرنے پڑے۔ اس خبر کو سن کر عجیب قسم کا دھچکا لگا۔ جبکہ دوسری طرف بچے خوشی سے نہال ہو رہیں ہیں۔ بچے تو بچے کالجز یونیورسٹیز کے طلباء کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے اور مجھے ایک چیز کی سمجھ نہیں آتی کہ کرونا ہمارے تعلیمی اداروں کا ہی دشمن کیوں ہے؟ جبکہ ہمارا باقی ملکی نظام جوں کا توں چل رہا ہے۔ جلسے ہو رہے ہیں، شادیاں ہو رہی ہیں ،ہوٹلوں میں رش ہے،سڑکوں پر انتہا کا رش ہے، لوگ سیر سپاٹے پر جا رہے ہیں کیا ادھر کرونا نہیں ہے کیا؟ اور خالی ہیں تو صرف ہمارے تعلیمی ادارے کیونکہ کرونا صرف تعلیمی اداروں میں ہی ہے۔صد افسوس! کہ پاکستان تو پہلے ہی ایک ترقی پزیر ملک تھا تعلیم پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھی وہی سالہاسال ایک ہی نصاب کا رٹہ لگوانا’ گورنمنٹ اساتذہ کی انتہا درجے کی لاپرواہی اور پھر کرونا نے آ کر سونے پہ سہاگے کا کام کر دیا ہے۔

 مارچ میں جب لاک ڈاؤن ہوا تو کہا گیا کہ گرمیوں کی چھٹیاں نہیں دی جائے گی گرمیوں میں ادارے بند رکھ کر کہا گیا سردیوں میں چھٹیاں نہیں دینگے اور اب سردیوں میں چھٹیاں دے کر کہا جا رہا کہ اگلے سال گرمیوں میں چھٹیاں نہیں دینگے۔ اس قوم کے مستقبل کو تاریک بنانے کے لئے عجیب قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہیں ہیں۔

اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک تعلیم کو بے حد نقصان ہوا ہے۔ بچوں کو جو کچھ آتا تھا سب بھول گیا ہے۔ اب تو بچوں کا بھی دل نہیں کرتا تھا سکول جانے کو اور اگر اب تھوڑا سسٹم ٹھیک ہونا شروع ہوا ہی تھا سلسلہ وار مراحل میں بچوں کو سکول بلوایا جا رہا تھا کہ دوبارہ لاک ڈاؤن ہو گیا ہے۔ مطلب اس پورے سال میں ہماری تعلیم کا معیار صفر رہا۔ اب تو والدین بھی کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ گھر رہ رہ کے بچوں کا تعلیم سے دل اٹھتا جا رہا ہے۔

اور یونیورسٹیز کے ایسے طلباء جن کی ڈگری دو سال کی تھی وہ تین سال میں چلی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ان سب میں نہ حکومت کا نقصان ہے نہ گورنمنٹ اساتذہ کا کیونکہ انہیں تو تنخواہیں ملتی ہیں اور ملتی رہیں گی فقط نقصان ہے تو طلباء کا جن کی ڈگریاں لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ جن کا گھر رہ رہ کے تعلیم سے دل اٹھتا جا رہا ہے۔

اگر سوچا جائے تو کیا ہمارا تعلیمی نظام اتنا برا ہے کہ چھٹیوں کی خبر سن کر بچے خوشی سے نہال ہو گئے ہیں؟کیا اساتذہ بچوں کو اس طرح کا پڑھاتے ہیں کہ وہ تعلیم سے دور بھاگتے ہیں؟ کیا اساتذہ کا رویہ اس قدر بدتر ہے؟۔ صد افسوس کہ آج ملک کہ حالات اس قدر ناساز ہو گئے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سب اساتذہ ایسے ہیں جو اس طرح کا پڑھاتے ہیں یا سب طلباء خوشی منا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کچھ اساتذہ ایسے بھی ہیں جو سنت نبوی پر چلتے ہیں۔ کچھ طلباء مجھ جیسے بھی ط ہیں جن کو اپنی ڈگری کی فکر ہے۔

بچوں کو درست طریقے سے نصاب پڑھانا’ نئی نسل کی رہنمائی کرنا اساتذہ کا اولین فرض ہے اور طلباء پہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی ہر ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔ کیونکہ ہم ہی تو اس ملک کے معمار ہیں۔ ہم نے ہی اس نظام کو بہتر بنانا ہے۔ اس کرونا کی وجہ سے ہر طرح سے نقصان ہمارا ہی ہے کسی سیاست دان کا کچھ نہیں جاتا۔ کسی گورنمنٹ استاد کا کچھ نہیں جاتا۔

خدارا اپنی اپنی زمہ داری کو سمجھے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔ آیک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ اچھا ماحول پیدا کرنا ہر فرد کی زمہ داری ہے تاکہ ملکی حالات بہتر بنائے جا سکیں۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button