تازہ ترینمضامین

دھڑکنوں کی زبان….ہمارے نوجوانوں کی سیاسی تربیت۔ .۔۔۔محمد جاوید حیات

دنیا میں جتنے بھی انقلابات آے وہ غریبوں، عام لوگوں اور نوجوانوں کے ہاتھوں آے ۔۔ نوجوان قوم کا بنیادی حلقہ ہے قوم کا یہ طبقہ اس کی بہت بڑی طاقت ہوتا ہے ۔ان کی ذہن سازی ہوتی ہے ۔ان کا عزم جوان ہوتا ہے ان کو اور کسی چیز کی لالچ نہیں ستا رہی ہوتی ہے ۔وہ نعروں سے بنتے ہیں نعروں سے بگڑتے ہیں ۔۔اسلام کے ابتدائ دنوں میں ہدایت یافتہ افراد میں ان نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی یہ برابر دین حق کی طرف آرہے تھے ۔۔یہ نوجوان موسیلینی اور نپولین بوناپاٹ کے دست راست تھے موزوتنگ اپنی ایک نظم میں ان کو اپنی آنکھیں کہتا ہے ۔صلاح الدیں ایوبی ان کو تیغ بے نیام کہا کرتے تھے ۔نازی دور میں ان کی پہلی تربیت عسکری ہوتی تھی ۔قاید اعظم نے ان کو یونگ eyeکہا کرتا تھا ۔۔اقبال نے ان کو قبیلے کی آنکھ کا تارہ کہا ۔آج بھی ان کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔۔پاک سر زمین میں یہ مختلف سیاسی پارٹیوں میں مختلف ناموں سے کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔۔جماعت اسلامی ان کو یوتھ کہتی ہے لیکن ان کے ہاں اپنے پلیٹ فارم سے ان کی تربیت کا خیال رکھا جاتا ہے ۔۔جماعت علماے اسلام ان کو طالب علم ہی کہتی ہے ۔۔پیپلز پارٹی میں یہ جیالوں کی صورت میں ہیں ۔اب تحریک انصاف یوتھیا کہہ کر ان کا تعارف کرتی ہے ۔۔مگر ان کی سیاسی تربیت پر سوال اٹھتا ہے ۔۔ان کو نابالغ اور غیر سنجیدہ کارکن گردانتے رہے ہیں ۔وہ ہر دور میں جذباتی سیاسی کارکن رہے ہیں ۔۔ان کو تعمیری سیاست کی تربیت نہیں دی گئ ۔۔اگر ایسا ہوتا تو ان کی خوب تعلیم و تربیت ہوتی وہ سیاست خود سمجھتے ۔ان کو تاریخ تہذیب ترقی وغیرہ کا پتہ ہوتا وہ تعمیری تنقید کر سکتے ۔وہ اچھے برے میں تمیز کر سکتے ۔۔ان کو حکومت کی پالیسیوں کو بغور مطالعہ کرنے کی توفیق ہوتی ۔۔ہمارے ہا ں بالکل ایسا نہیں ہوتا ۔ہر طرف جذبات ہی جذبات ہیں ۔۔کوئ نہ مستقبل کو سوچتا ہے نہ نتیجے کو دیکھتا ہے ۔۔نہ سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔اس کو یہ اندازہ بھی نہیں کہ اس کے رویے سے اس کی حکومت پارٹی اور خود اس کی کارکردگی پر کیا اثر پڑتا ہے ۔۔ہمارے نوجوانوں کی مخالفت بھی ایک طرح سے جنون ہے اور حمایت بھی جنون ہے ۔۔اس وجہ سے سیاست گالم گلوج اور آگے جا کر دشمنی میں بدل جاتا ہے ۔۔اس میں قصور غیر سنجیدہ لیڈرشپ کی ہے نوجوانوں کی نہیں ۔۔یہ اپنی میٹنگوں میں ،اپنی منصوبہ سازیوں میں ،اپنے ایجنڈوں میں ایسی مخالفت اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ کہ ان کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں سٹیچ پہ آکر نہ بات کو تولتے ہیں نہ نتیجے پہ سوچتے ہیں ۔۔اس سمے ان کے حامیوں میں نابالغ اور غیر سنجیدہ سیاست پنپتی ہے ۔آگے پالیسیاں واضح نہیں ہوتیں ۔۔پارلیمنٹ انتظامیہ عدلیہ اور عوام میں فاصلہ بڑھتا ہے ۔۔ہماری لیڈرشپ کو کارکن بنانے کے لیے نوجوانوں کو شرافت کی سیاست پڑھانی چاہیے ۔افہام و تفہیم کا درس دینا چاہیے ۔صبرو استقامت اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کا پیاڑہ پڑھانا چاہیے ۔لیکن ایسا نہیں ہوتا اور نہ مستقبل میں
ایسا کوئ امکان ہے

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button