تازہ ترین

پی آئی اے طیارہ حادثہ:8303 pk پر کیا گزری؟ جب حادثہ ہوا تو میں کیا کررہا تھا مجھے اللہ تعالی نے کیوں محفوظ رکھا ؟ بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود کے اہم انکشافات

اسلام آباد( آوازچترال )اس سال مئی میں لاہور سے کراچی جانے والاپی آئی اے کا مسافر طیارہ حادثے کا شکار ہوا ،اس حادثے میں عملے کے اراکین سمیت 97 افراد ہلاک جبکہ دو افراد زخمی ہوئے تھے۔ان دو زخمی افراد میں سے ایک خوش قسمت بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود بھی شامل تھے ۔ روزنامہ جنگ کیساتھ انہوں نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعے سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی ، ظفر مسعود بتاتے ہیں کہ اس خوفناک دن میں آلارم سے پہلے ہی بیدار ہوگیاتھا۔ شاید خوشی بھی تھی کہ میں اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ عید کی

عطیلات گزارنے ایک ہفتے کے لیے کراچی جارہاہوں۔ حقیقی خوشی کا باعث یہ سوچ بھی تھی کہ میں نے بینک آف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر تعیناتی کے پہلے پانچ ہفتے بہت اطمینان بخش طریقے سے فرائض سرانجام دیے تھے ۔ مجھے بورڈ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے بہت طمانیت بخش حمایت ملی تھی ۔ بینک آف پنجاب میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے کسی چیف ایگزیکٹوکی تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے اہم فیصلوں میں ایک خلا سا تھا۔ کورونا کی وجہ سے معاملات مزید پیچیدگی اختیار کرگئے تھے ۔ بینک کو درست راستے پر واپس لانے اور اسٹاف کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ اسٹاف ہی تھا جو ان مشکل اور غیر یقینی لمحات میں فرنٹ لائن پر کام کررہا تھا۔ ضروری تھا کہ نیا سی ای او ان کی ہمت بندھائے اور ان کی بہتری اور تحفظ کا خیال رکھے ۔ سینئر ساتھیوں کی حمایت سے میں اسٹاف کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب رہا ۔ فرنٹ لائن اسٹاف کے خصوصی بونس میں اضافے کے علاوہ اسٹاف کے لیے سود سے پاک رعایتی قرضوں کی حد میں اضافہ کیا گیا ۔ یہ میری پیشہ ورانہ زندگی کے انتہائی طمانیت بخش اقدام میں سے ایک تھا ۔کہا گیا کہ اسٹاف کو دی جانے والی یہ رعاتیں تھیں جن کی وجہ سے قدرت نے مجھے بچا لیا ۔ بینک کے تنظیمی ڈھانچے پر بہت دیر سے نظر ثانی کی ضرورت تھی اور اس مختصر مدت کے دوران میں ایسا کرنے میں کامیاب رہا ۔ اس کی وہ سے اسٹاف کے ابتدائی شکوک و شبہات رفع ہوگئے اور انہیں اعتماد ملا۔ درحقیقت میں یہ تمام کام بہت مختصر مدت میں کرنے میں کامیاب رہا جس نے مجھے طمانیت بھی فراہم کی اور بینک آف پنجاب میں میرے مستقبل کی راہوں کو بھی روشن کردیا ۔ کچھ لوگوں نے مجھ سے پوچھا بھی کہ میں اتنی جلدی یہ تمام اقدامات کیوں اٹھا رہا ہوں ۔ شاید کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ میں اگلے دو ماہ تک کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہوں گا، اور یہ کہ میں لاشعوری طور پر اس وقت مستقبل میں طے پانے والے امورسرانجام دے رہا تھا ۔میں عین وقت پر ایئرپورٹ پہنچنے کے لیے بدنام رہا ہوں۔ بعض اوقات تو ٹھیک اس وقت جب کائونٹر بند ہونے اور جہاز کے اڑان بھرنے کا وقت ہوچلا ہوتا ہے ۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بائیس مئی 2020 کو میں معمول سے بہت پہلے ائیرپورٹ پر پہنچ گیا ۔ خوش قسمتی سے مجھے اپنی سیٹ تبدیل کرنے کا کافی وقت مل گیا ۔ شروع میں میری بکنگ کھڑکی کے قریب والی سیٹ تھی لیکن میں ہمیشہ اندرونی سیٹ(Isle) پسند کرتا ہوں۔ ایئرپورٹ پر جلدی پہنچنے کی وجہ سے مجھے سیٹ تبدیل کرکے 1C حاصل کرنے کا موقع مل گیا ۔ میرے پروٹوکول آفیسر کا کہنا تھا کہ جب سیٹوں کی پوری قطار خالی ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اس قطار میں کہا ں بیٹھوں گا، لیکن میرا اصرار تھا کہ میں اپنی عادت کے مطابق اندرونی سیٹ پر ہی بیٹھوں گا۔ اب خیال آتاہے کہ سیٹ کی تبدیلی میرے بچ جانے کی وجوہات میں سے ایک تھی ۔اسی صبح گیارہ بجے میری سیٹ سیرین ائیر (Serene Air) میں بھی بک تھی ، لیکن میں نے ایک دن پہلے اسے تبدیل کراکے پی آئی اے کی اس بدقسمت فلائٹ میں سیٹ حاصل کرلی تھی ۔ میں نے ایسا دووجوہ کی بنا پر کیا تھا : (1) پی آئی اے کی فلائٹ کا وقت بہتر تھا اوراس کے لیے مجھے علی الصبح جاگ کر ایئرپورٹ آنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ مجھے کبھی بھی اتنی صبح جاگ کر ائیرپورٹ کی طرف لپکنا اچھا نہیں لگا؛ اور (2) اگر سیرین ائیرکی فلائٹ منسوخ ہوجاتی تو اس کی دوسری فلائٹ اسی روز نہیں مل سکتی تھی ۔ اس کے لیے اگلے روز کا انتظا رکرنا پڑتا۔ دوسری طرف پی آئی اے کی دن میں ایک سے زیادہ فلائٹس ہوتی ہیں۔ یہ بات میں اندرون ملک کثرت سے فضائی سفر کے تجربے کی بنیاد پر جانتا تھا۔ایسا ہوا کہ پی آئی اے کا طیارہ بھی وقت سے قدرے پہلے پرواز کے لیے تیار ہوگیا ۔ ایسا لگتا تھا کہ اس روز ہر چیز طے شدہ وقت سے پہلے ہوتی جارہی ہے ۔ کوئی طاقت چاہتی تھی کہ لوگ جلد از جلد، بلا تاخیر، اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔مجھے یقین ہے کہ خدا ان سے محبت کرتا ہے جو اس کے بندوں سے پیار کرتے ہیں۔ اس سے قارئین کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ میں کس قسم کی شخصیت رکھتا ہوں۔ شاید اللہ تعالی نے مجھے اسی لیے آج کے دن تک زندہ رکھا ہے ۔اگرچہ میں جہاز کے پرواز کرنے سے پندرہ یا بیس منٹ پہلے پہنچ چکا تھا لیکن مجھے معلوم ہوا کہ میں جہاز میں داخل ہونے والا آخری مسافر تھا ۔ میرے بعد شاید ہی کوئی مسافر آیا ہو۔ کم وبیش تمام مسافر اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے، چنانچہ پائلٹ نے شیڈول سے قدرے پہلے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔ چونکہ میں سب سے پہلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ، اس لیے میں نہیں جانتا تھا کہ جہاز میں اور کون موجود ہے ۔ ایک صاحب جو میری قطار میں ہی بیٹھے تھے لیکن وہ اندرونی سیٹ سے دو سیٹیں پیچھے چلے گئے ۔ اب یہ تمام قطارخالی تھی ۔ انہوں نے کورونا سے تحفظ کا مکمل لباس پہنا ہوا تھا ۔ میں نے انہیں جہاز میں دیکھا تو سہی لیکن حفاظتی لباس کی وجہ سے نہ پہچان سکا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ کون تھے اور میں انہیں جانتا تھا۔میں اکثر جہاز کی پرواز سے پہلے اپنے آئی پیڈ کو آن کرلیتا ہوں۔ میں اس پر کوئی فلم دیکھتا ہوں یا کوئی اور کام کرلیتا ہوں ۔ اس روز بھی میں نے یہی کچھ کیا ۔ چند ایک مواقع پر جب مجھے کچھ کھانے پینے کی اشیا لینی پڑیں (میں روزے سے نہیں تھا) میں اپنی ای میلز پر کام کرتا رہا ۔ کرنے کے لیے بہت سا کام تھا اور میں پوری طرح مصروف تھا۔ بطور سی ای او، بینک آف پنجاب کی بلیک ٹی شرٹ پہنے میں اپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ جہاز میںکون کون سوار ہے ۔ یہ کراچی میں پہلی مرتبہ جہاز اتارنے کے وقت لگنے والا جھٹکا تھا جب میں نے آئی پیڈ سے نظریں ہٹائیں اور چونک کر ادھر ادھر دیکھا کہ دوسرے مسافروں کے کیا تاثرات ہیں۔ حسب ِمعمول، پائلٹ نے درست وقت پر لینڈ ہونے کا اعلان کیا اور سب کچھ معمول کے مطابق دکھائی دے رہا تھا، لیکن جب جہاز نے لینڈنگ کی تو تین غیر معمولی جھٹکے لگے ۔ پہلے جھٹکے پر تو مجھے زیادہ پریشانی نہ ہوئی کیونکہ جب جہاز معمول کی رفتار سے زیادہ تیزی سے لینڈکرتا ہے تو ایسا جھٹکا لگتا ہے ، اور PK8303 کی رفتار یقینا تیز تھی۔ لیکن پہلے جھٹکے کے فورا بعد لگنے والا دوسرا جھٹکا تھا جس نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے آئی پیڈ کو بندکیا اور گردوپیش پر نظر دوڑائی کہ مسافروں کا کیا رد عمل ہے ؟ اتنی دیر میں تیسرا جھٹکا لگا، اور چند لمحوں میں پائلٹ نے جہاز کو اوپر اٹھانے کا فیصلہ کیا جو کہ انتہائی غیر معمولی بات تھی ۔ میری زندگی میں کم از کم ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میری طرف والی کھڑکی بند ہوچکی ہے۔ میں اٹھا اور کھڑکی کھولی تاکہ دیکھوں کہ باہر سے ہمیں کیا ہدایت مل رہی ہے اور کس بری صورت حال کے لیے تیار ہونا ہے؟ اب تک طیارہ ہوا میں دوبارہ بلند ہوچکا تھا ، شاید تین ہزار فٹ تک۔ یہ سب کچھ بہت عجیب اور خوفزدہ کردینے والا تھا ۔کھڑکی سے باہر مجھے کوئی افراتفری یا پریشانی دکھائی نہ دی اور نہ ہی مسافروں میں سے کوئی چیخ یا چلا رہا تھا ۔ کم از کم مجھے کچھ سنائی نہ دیا ۔ میں نے اپنی سیٹ پر بیٹھ کر ارد گرد دیکھا جہاں لوگ میرے پیچھے والی نشستوں کی قطار میں بیٹھے تھے ۔ وہ سب پرسکون تھے ، لیکن کچھ آیات کی تلاوت کررہے تھے ۔ تمام واقعات غیر معمولی اور ڈرا دینے والے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی بدترین صورت ِحال پیش آنے والی ہو، جیسا کہ بعد میں ہوا۔ میری سیٹ اسٹاف کیبن سے تھوڑی سی پیچھے اور مسافروں کی نشستوں کے درمیان تھی۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ دو ایئرہوسٹس بیٹھی دعائیں کررہی تھیں۔ کاک پٹ کا دروازہ بند تھا۔کریش لینڈ نگ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے اور نہ ہی اس قسم کا کوئی اعلان ہوا تھا۔ اچانک کاک پٹ سے ایک اور، اعلان ہوا، اور یہ آخری اعلان تھا، کیبن اسٹاف، لینڈنگ کے لیے تیار رہیں۔ حادثے سے چند سیکنڈ پہلے ایک جھٹکا لگا، جس کی وجہ غالبا انجن کی خرابی تھی،ا ور اسی جھٹکے کے ساتھ کاک پٹ کا دروازہ بھی کھل گیا ۔ میں نے سامنے والی اسکرین سے دیکھا تو مجھے ایسے لگا جیسے جہاز عمودی طور پر زمین کی طرف گر رہا ہے ۔ اگرچہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا لیکن عمارتیں اتنی قریب دکھائی دے رہی تھیں کہ مجھے ایسے ہی لگا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ جہازکسی خوفناک حادثے شکار ہونے جارہا ہے اور اس وقت اسے ٹالا نہیں جاسکتا ۔میں اس تمام واقعے کے سب سے اہم حصے کی طرف بڑھ رہا ہوں ۔ اگرچہ میں موت سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوا ،میں دیکھ چکا تھا کہ اب جہاز کسی بھی لمحے زمین سے ٹکرانے والا ہے اور میں کسی بھی قسم کے انجام کے لیے خود کو تیار کرچکا تھا، میرے دل نے اللہ تعالی کو پکارا، کیا میں مرنے والا ہوں؟جواب ملا، ابھی وقت نہیں آیا۔میں نے دوبارہ پوچھا اور ایک مرتبہ پھر دل نے یہی جواب دیا ، جہاز ٹکرانے والا ہے لیکن تم نہیں مرو گے ۔اس جواب کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ جہاز کا ٹکرانا تو طے ہے لیکن میں نے نہیں مروں گا۔ جب بھی میں ان لمحات کو یاد کرتاہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اعتماد میرے اندر کہاں سے آیا ، لیکن ایسا ہی ہوا تھا ۔ میرے والد صاحب نے بتایا کہ جب انھوں نے ٹی وی پر طیارے کے حادثے کی خبر سنی انہیں بھی میرے بچ جانے کا اتناہی یقین تھا۔جب اللہ پاک نے مجھے حوصلہ اور طاقت دی اور بچ جانے کا اعتماد بخشا تو اس کے بعد میں نے کوئی دعا نہ کی، حالانکہ میرے سامنے ایئرہوسٹس آہ وزاری کرتے ہوئے دعائیں کررہی تھیں۔ میری سیٹ کے دائیں طرف موجود عملے کی بھی یہی حالت تھی ۔ سچی بات یہ ہے کہ کچھ بھی تلاوت کرنے کا وقت نہیں تھا۔ جب تک میں نے اپنے دل میں اپنے خدا کے ساتھ مکالمہ کیا ، جہاز بے قابو ہوچکا تھا ۔ یہ سب کچھ چند سیکنڈ ز کے اندر ہوا تھا ۔ کاک پٹ سے نہ کوئی اعلان ہوا ، نہ کوئی اشارہ ملا کہ جہاز ناگہانی حالت میں ہے ۔ میرے اندازے کے مطابق جہاز کو لینڈنگ کی تیسری ناکام کوشش کے بعد بلند ہوئے دس منٹ گزر چکے تھے ۔ اسی وقت ایئرہوسٹس کو بھیانک صورت ِحال کا اندازہ ہوگیا اور انھوں نے تلاوت اور دعائیں کرنا شروع کردی تھیں۔ میں نے بھی تلاوت کرنے کی کوشش کی تھی ۔میں سن سکتا تھا کہ ایئرہوسٹس کی دعائوں کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی ۔ ان کی آواز کی شدت اور کرب سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں اندازہ ہوگیاتھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ،اور یہ کہ اب صرف خدا ہی انہیں بچا سکتا ہے ۔ وہ بہت خوفناک لمحہ تھا ۔ مجھے یقین ہے کہ دیگر افراد کا بھی یہی حال ہوگا لیکن میرا دھیان ایئرہوسٹس کی حالت پر اس قدر تھا کہ میں دیگر کونہیں دیکھ سکا کہ وہ کیا کررہے تھے یا کیا کرسکتے تھے ۔جہاز کا غالبا پچھلا حصہ کسی بلند عمارت سے ٹکرایا تو اس وقت جہاز افقی حالت میں تھا۔ ٹکرائو سے شدید جھٹکا لگا۔ اس وقت تک مجھے احساس تھا کہ میں شدید زخمی نہیں ہوا ہوں، لیکن میں بے ہوش ہوگیا ۔ شاید یہ کریش کے دبائو کا نتیجہ تھا کیونکہ میرے سر پر یا کہیں ا ور کوئی شدید ضرب نہیں لگی تھی ۔ درحقیقت جب میں زمین پر گراتو بھی مجھے ایسا کوئی زخم نہیں لگا جو میری بے ہوشی کا باعث بنا ہو۔بہرحال میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا ورنہ وہ مناظر میرے ذہن پر شدید اثرات مرتب کرسکتے تھے اور بچ جانے کے باوجود میراذہن زندگی بھر کے لیے متاثر ہوجاتا یا میں اس وقت کوئی احمقانہ حرکت کر بیٹھتاجو ان حالات کو تبدیل کردیتی جن کی وجہ سے میں آج زندہ ہوں ۔ مجھے ہوش اس وقت آیا جب مجھے زمین سے اٹھایا گیا ۔ چنانچہ ان اصل لمحات کی کوئی یاد میرے ذہن میں نہیں ہے ۔ میں کچھ نہیں جانتا کہ میں جہازسے باہر کیسے گرا؟ میں ٹھوس زمین کی بجائے مسافروں سے بھری ہوئی کار پر کیسے گرا؟ جہاز کے ملبے سے مجھے کیسے نکالا گیا ؟ اور اس طرح کے بہت سے واقعات کا میں عینی شاہد نہیں ہوں۔مجھے ان لمحات کے بارے میں بعد میں دیگر ذرائع سے علم ہوا۔ جہاز ماڈل کالونی سے ٹکرانے کے بعد کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔ اسٹاف کا کیبن اور کاک پٹ اور مسافروں کے بیٹھے کے حصے ٹوٹ گئے ، چونکہ میں بالکل سامنے بیٹھا ہوا تھا، اس لیے جب جہاز تباہ ہوا تو میری سیٹ جہاز سے باہر جا گری اوراس کے ساتھ میں بھی ایک مکان کی چھت پر گر گیا ۔ خوش قسمتی سے سیٹ مکان کی چھت پر بالکل سیدھی گری اور پھر اچھل کر میرے سمیت سڑک پر گری ۔ اگر سیٹ الٹ جاتی تو مجھے مہلک چوٹیں لگ سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوا۔مزید خوش قسمتی کہ میں سڑک کی بجائے سیٹ سمیت ایک کار پر گرا۔ اگر میں مکان کی چھت سے سڑک پر گر تا تو بھی میری جان جاسکتی تھی ، لیکن خدا نے مجھے بچا لیا ۔ خدا ئی مدد یہیں تک ہی نہ تھی ۔ خوش قسمتی سے جس کار پر میں گرا، اس میں مسافر تھے ورنہ کسی کو میرا پتہ نہ چلتا کہ میں زندہ ہوں۔ کارکے مسافروں نے مجھے بتایا کہ جب انھوں نے اپنی گلی میں ایک دھماکے کی آواز آئی تووہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی کار سے کیا چیز ٹکرائی ہے ۔ وہ کار سٹارٹ کرکے جانے والے تھے کہ ان کی کار کی سکرین ٹوٹ کر جاگری اور انھوں نے مجھے بونٹ سے ٹکراتے دیکھا ۔ میں مدد کے لیے چلا رہا تھا ۔ اس طرح انھوں نے مجھے بچا لیا ۔ مجھے یہ سب کچھ یاد نہیں ، لیکن ایک چشم دید گواہ نے یہ سب کچھ مجھے بتایا تھا۔ کارکے مسافروں نے مجھے کار اور جہاز کے ملبے ، اور غالبا سیٹ کے درمیان سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس پر انھوں نے مدد کے لیے دیگر افرادکو پکارا۔ آگ تیزی سے اس طرف بڑھ رہی تھی جہاں میں پھنسا ہوا تھالیکن پانچ مہربان ہمت کر کے اس طرف بڑھے اور مجھے وہاں سے نکالا۔ اس کے بعدوہ تمام جگہ جل کر راکھ بن گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب میرے حواس بحال ہونا شروع ہوئے ۔ شاید اس کی وجہ تکلیف تھی۔ جلد ہی میں پوری صورت ِحال کا ادراک کرنے کے قابل ہوگیا ۔ میں نے اپنی مدد کرنے والوں کو بتایا کہ میرا ایک بازو اور ٹانگ ٹوٹ چکے ہیں اور کمر میںدرد ہورہا ہے (شاید جل چکی تھی)۔ انھوںنے مجھے بہت نرمی سے اٹھایا اور وہاں سے نکالا۔جس گلی میں طیارہ گرا تھا وہ بند تھی اور اس سے اب گزرنا ممکن نہیں تھا، لیکن ایک مرتبہ پھر خوش قسمتی نے میرا ساتھ دیااور دو عمارتوںکے درمیان تنگ سا راستہ مل گیا۔ وہاں گیٹ لگاہوا تھا جو عام طور پر بند ہوتا ہے لیکن اس موقع پر گیٹ کا تالا کھلا ہوا تھا ۔ مجھے اس راستے سے نکال کر سڑک پر لایا گیا جہاں ایک ایمبولینس نے مجھے سی ایم ایچ اسپتال ملیر تک پہنچایا۔ خدا کے فضل و کرم سے یہ سب کچھ ایک طے شدہ بندوبست کی طرح ہوتا چلا گیا۔میں نے 13 جولائی 2020 کو کام شروع کیا تھا۔ میں ورک فرام ہوم انتظامات کے تحت گھر سے کام کرتا رہا ۔ اس کے بعد میں نے اٹھائیس ستمبر 2020 کو لاہور آفس جائن کرلیا۔

Facebook Comments

متعلقہ مواد

Back to top button